لاہور (حافظ محمد عمران/ سپورٹس رپورٹر) کھلاڑی بے روزگار، کھیل کے میدان ویران، کرکٹ گراؤنڈز کو تالے، کرکٹرز معمولی ملازمتوں پر مجبور اور کوچز سبزیاں بیچنے پر مجبور ہوتے رہے، کارپوریٹ کلچر کے نام پر، کفایت شعاری کے نام پر یا پھر زائد ملازمین کا بہانہ بنا کر برسوں کام کرنے اور ہزاروں میں تنخواہ لینے والوں کو گھر بھیج دیا گیا لیکن اس دوران سالانہ کروڑوں روپے چند اعلیٰ افسران کی تنخواہوں کی نذر کر دیے گئے۔ رمیز راجہ کے آنے سے پہلے ڈومیسٹک کرکٹ کنٹریکٹ کی ایک کیٹگری میں کرکٹرز کو صرف چالیس ہزار ماہانہ تنخواہ دی جاتی رہی لیکن پسندیدہ افراد کو لاکھوں ماہانہ دیے جاتے رہے۔ کرکٹ بورڈ حکام لمبے عرصے تک چند مخصوص افسران کی تنخواہوں کو پارلیمنٹ سے چھپاتا رہا۔ کرکٹرز پر روزگار کے دروازے بند کر افسران کی تنخواہوں اور مراعات پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا رہا۔ فزیوتھراپسٹ اینڈریو ڈیکون کی تنخواہ 21 لاکھ 15 ہزار 910،ڈائریکٹر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سمیع الحسن برنی کی تنخواہ تیرہ لاکھ 59 ہزار 651 روپے جبکہ ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس محمد ندیم خان کی تنخواہ 13 لاکھ پندرہ ہزار، ہیڈ انٹرنیشنل پلیئرز ڈویلپمنٹ ثقلین مشتاق کی تنخواہ 12 لاکھ ستتر ہزار 711 ، چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان نصیر کی تنخواہ بارہ لاکھ 45 ہزار روپے، چیف فنانشل آفیسر جاوید مرتضیٰ، 12 لاکھ 40 ہزار 417 روپے، چیف میڈیکل آفیسر نجیب اللہ سومرو ہی تنخواہ بارہ لاکھ پندرہ ہزار، چیف سلیکٹر محمد وسیم کی تنخواہ 10 لاکھ، ڈائریکٹر ہیومن ریسورس سرینا آ غا کی تنخواہ 8 لاکھ پینسٹھ ہزار روپے جبکہ ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ آپریشن ذاکر خان کی تنخواہ آٹھ لاکھ چوالیس، ہزار 708 روپے، ڈائریکٹر سکیورٹی آصف محمود کی تنخوا چھ لاکھ 50 ہزار روپے، لاجسٹکس ہے اسد مصطفیٰ کی تنخواہ 6 لاکھ 13 ہزار 345 روپے جبکہ فنانس کے عتیق رشید کی تنخواہ 6 لاکھ روپے ہے۔ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز چیف ایگزیکٹوز کو بھی بورڈ پانچ لاکھ روپے ماہانہ ادا کرتا ہے۔ صوبائی ایسوسی ایشنز کے افسران میں محمد عبدالصبور، انور سلیم کاسی، بابر خان، نجیب صادق اور عبداللہ خرم نیازی شامل ہیں۔ دو ہزار انیس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سی ای او وسیم خان 26 لاکھ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے تھے۔ قائمہ کمیٹی کے رکن اقبال محمد علی کے مطابق وسیم خان کی تنخواہ میں ہر سال دس فیصد اضافہ کیا جاتا تھا جب وہ چھوڑ کر گئے ہیں تو ان کی تنخواہ لگ بھگ چونتیس پینتیس لاکھ تھی۔ کمیٹی رکن اقبال محمد علی نے کہا کہ اگر پی سی بی کے آڈٹ معاملات حل نہ ہوئے تو کیس ایف آئی اے کو بھیج دینگے۔ پی ٹی وی نے کرکٹ نشریات کے حوالے سے نجی ٹی وی سے کنسورشیم کیا ہے ، یہ کیسا مذاق ہو رہا ہے ، پی ٹی وی حکومت پاکستان کا ادارہ ہے اور ایک پرائیویٹ ٹی وی کیساتھ کیسے کنسورشیم کیا جا سکتا ہے کمیٹی چیئرمین کے مطابق کرکٹ کی نشریات نجی ٹی وی کو دینے پر تشویش ہے۔اقبال محمد علی نے کہا کہ پی سی بی میں سب سے مہنگے سابق سی ای او تھے جو ملک میں کرکٹ کا بیڑہ غرق کرکے گئے ہیں ، بتایا جائے وسیم خان نے استعفیٰ کیوں دیا۔
پی سی بی حکام کی تنخواہیں قا ئمہ کمیٹی میں پیش
Jan 06, 2022