عوام پر مہنگائی کا اثر نہیںپڑے گا ، مزاحیہ بیانیہ

حکومت نے نااہل حزب اختلاف کی موجودگی میں تین ساڑھے تین سال کا عرصہ گزار دیا ، عوام کی چیخوں میں بھی اب آواز نہیں رہی، تحریک انصاف نے انتخاب سے قبل اپنا بیانیہ سابقہ حکمرانوں کے خلاف کرپشن کو بنایا جو آج تک تحریک انصاف کا بنیادی بیانیہ ہے حکومت کے مشیران، بیانیہ باز ، ترجمان رات کو دن دن کو رات بہت ہی ڈھٹائی سے کہتے ہیںچاہے حکومت کی کوئی بھی غلطی ہو ۔ موجودہ حکومت کے مضبوط بیانیہ اپنی جگہ مگر ان تین سالوںمیں کرپشن میں مزید ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے ۔ اپنی حکومت کے مخالفین ٹارگٹ بناکر نیب کے دفتر کے آگے باندھ دیا گیا ہے جبکہ اور بے شمار کرپشن کے ’’کاریگر ‘‘ جو حکومت کیلئے براہ راست خطرہ نہیں اور وہ ’’کاریگر ‘‘حکومت میں کسی عہدے کے لالچی نہیں ہوتے وہ صرف کسی بھی جماعت یا سیاسی لیڈر کے اے ٹی ایم کا کردار ادا کرتے ہیں عوام کی حیثیت ایک تماشبین کی ہوگئی ہے جو اپنے مسائل کے حل کیلئے تگ و دو میں مصروف ہے اورتھوڑا بھی سوج بوجھ رکھنا، والے اب یہ سوچنے پر حق بجانب ہیں صرف کرسی پر بیٹھے رہنا ، اور کرسی سے دور رکھنے ، ایک میوزیکل چئیر کا عمل ہے جو عوام سالوں سے جھیل رہے ہیں، حزب اختلاف کی پالیسیاں صرف ایک ’’ٹیلفون ‘‘ کی مار ہوتی ہیں اسکا مظاہرہ بھی عوام کے سامنے ہوتا رہا ہے ،سیاست دان تو یہ چاہتا ہے کہ سارا میڈیا اسکی حمائت کرے اگر غیر جانبدرانہ رائے کا اظہار کرے تو وہ وہی جو مسلم لیگ ن کے سابق وزیر اطلاعات نے کہا ہے ‘‘( بار بار لکھنا اچھا نہیں لگتا) اگر کوئی صحافی یہ کہے کہ حالیہ منی بجٹ ایک نورا کشتی تھی کیا یہ غلط ہوگا؟؟ نورا کشتی کو غلط ثابت کرنے کیلئے پی پی پی کی شگفتہ جمانی نے پی ٹی آئی کی غزالہ سیفی کو تھپڑ جڑدیا، غزالہ سیفی کارروائی چھوڑ کر چلی گئیں۔اس معاملے پر شگفتہ جمانی بولیں کہ حملہ پہلے غزالہ نے کیا۔وہ سینئر ہیں، کوئی ہاتھ لگائے گا تو جواب تو دینا پڑیگا۔ اس سارے معاملے پر عوام نے ٹی وی پر نظارہ کیا کہ وزیر خارجہ اپنی اگلی نشست پر بیٹھ کر لطف اندواز ہورہے تھے ۔ اگر اپوزیشن متحد ہوتی تو حکومت کبھی عوام کو زندہ درگور کرنے والا منی بجٹ آئی ایم ایف کے حکم پراسکی خوشنودی کیلئے نہیں لاسکتی تھی۔ اسے ایوان میں شکست کا سامناکرنا پڑتا اور آئی ایم ایف جو اس منی بجٹ کو آردیننس کے ذریعے رو بہ عمل کرنے کا مخالف ہے اسکی طرف سے قرض دینے میں مزید تا خیر ہوسکتی تھی۔ یہ بات عوام بھی دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف تو حکومت آئی ایم ایف کی غلامی میں قوم کولے جاچکی ہے تو دوسری طرف عوام کے ہاتھ پائوں حزب اختلاف کی مدد سے باندھے جارہے ہیں حیرت ہے کہ اپوزیشن جو ڈٹ کر ہر حکومتی اقدام کی مخالفت کرتی ہے اور حکومت کو گزشتہ تین سال سے گھر بھیجنے کے عندیہ دیتے ہی اسکی دوعملی اس اجلاس میں کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ، اپوزیشن کی طرف سے صرف تین ارکان مخالفت میں کھڑے ہوئے۔اپوزیشن ارکان کی اکثریت گنتی میں کھڑی نہیں ہوئی۔صرف’’تین ارکان‘‘ کی طرف سے ووٹنگ کے وقت کھڑے ہوکر اسکی مخالفت کرنا یہ بات ثابت کرتا ہے کہ اپوزیشن کا ایجنڈا عوامی نہیں بلکہ محض عمران خان کی مخالفت ہے۔دراصل اپوزیشن ایک ٹیلفون کی مار حزب اختلاف حکومت کو اندرون خانہ مکمل حمایت فراہم کئے ہوئے ہے اور مہنگائی، بیروزگاری، نامساعد معاشی حالات جن سے پاکستانی عوام نبرد آزما ہیں ان میں اپوزیشن برابر کی شریک جرم ہے۔اب منی بجٹ پر عملدرآمد ہونے کی دیر ہے عوام پر زندگی گزرانہ مزید مشکل ہوجائیگا ، اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوگا ۔ صرف وہی اس معاشرے میں اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا جسکے پاس مالی وسائل ہونگے۔ قوم نے اپوزیشن کو اسمبلیوں میں صرف نعرے بازی کیلئے نہیں بھیجا بلکہ عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے بھیجا تھا۔حکومت نے بھی بلز منظور کرانے کیلئے حزب اختلاف پر انحصار کرنا چھوڑ دیا ہے ورنہ ماضی میں بلوںکی منطوری کیلئے حزب اختلاف ے مذاکرات ہوتے تھے مگر اب نہیں، منی بجٹ کے مطابق، 343 ارب روپے کی جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) چھوٹ ختم کردی گئی۔ جی ایس ٹی کی مراعات کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ71 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہ عوام پر دو ارب کے ٹیکسوں سے کون سا طوفان آجائیگا۔ وہ فرماتے ہیں کھانے پینے کی اشیاء پر ٹیکس لگانے آئی ایم ایف کی شرط پر ہماری ان سے بہت لڑائی ہوئی ، جو حکومت آئی ایم ایف کی ایماء پر انکے لوگوںکو وزیر خزانہ لگا دے، مالیات اداروںکو اہم عہدوںپر لگادے اندازہ کیجئے کہ اسکی آئی ایم ایف سے کتنی لڑائی ہوئی ہوگی۔ ایم ایف پاکستان کو جو قرضہ دے رہا ہے اسکے بدلے میں وہ ملک کی معاشی پالیسیاں اپنے ہاتھ میں لے کر تمام فیصلے خود کرنا چاہتا ہے۔ یوں پاکستان کے بجٹ کی تیاری کا معاملہ بھی آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہی چلا جائے گا اور وہی اس بات کا فیصلہ کریگا کہ اشیاء کی قیمتیں کیا مقرر کرنی ہیں اور کون کون سے ٹیکس لگانے ہیں۔ یہ صورتحال ملک کو ایک ایسی نہج پر لے جائیگی جہاں عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور ملکی معیشت استحکام کی بجائے مزید بگاڑ کی طرف جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن