تحریک آزادی ِکشمیر اورقاضی صاحبؒ! 

سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمدؒ کو ہم سے بچھڑے نو سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ یہیں کہیں ہمارے آس پاس موجود ہیں،قاضی صاحب ؒکی وفات نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ پوری پاکستانی قوم، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں، خصوصاً اہل کشمیر کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ کشمیر میں جہاد کا آغاز ہوا تو بھارتی میڈیا نے دن رات قاضی صاحبؒ کو کوسنا شروع کردیا ،روزانہ دعوے کئے جاتے کہ آج قاضی حسین احمد ؒنے کشمیر میں ’’گڑ بڑپھیلانے ‘‘ کیلئے اتنے پیسے بھیج دیئے۔۔اتنا اسلحہ بھیج دیا ۔۔اتنے اگروادی بھیج دیئے ۔ جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان دوستی بس کا اجراء ہوا تو مشرف حکومت کی شدید خواہش تھی کہ گیلانی صاحب دوسرے کشمیری لیڈروں کے ہمراہ پہلی بس میں بیٹھ کر مظفر آباد آئیں اور ان نمائشی اقدامات کی توثیق کریں، جو دونوں حکومتیں حالات کو ’’معمول‘‘ پر لانے کے لیے کر رہی ہیں۔ حکومت پاکستان نے حزب المجاہدین کی قیادت اور جماعت اسلامی کے رفقاء کے ذریعے بھی گیلانی صاحب پر دبائو ڈلوایا کہ وہ پاکستان آنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اگرچہ گیلانی صاحب کی پاکستان آمد کے حق میں ٹھوس دلائل تھے، لیکن گیلانی صاحب محسوس کر رہے تھے کہ یہ ایک منافقانہ کھیل ہے جس سے تحریک آزادی کو فائدہ پہنچنے کے بجائے الٹا نقصان ہو گا، اس لیے انھیں اس کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ جب قاضی صاحب کو معلوم ہوا کہ گیلانی صاحب دوستی بس کے ذریعے پاکستان نہیں آنا چاہتے تو انہوں نے جماعت اسلامی کے رفقاء کو ہدایت کی کہ وہ گیلانی صاحب کو پاکستان آنے پر مجبور نہ کریں، وہ تحریک ِ آزادی ٔ کشمیر کے تقاضوں کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ خود قاضی صاحب بھی مسئلہ کشمیر پر کسی مداہنت کے قائل نہ تھے۔ وہ گیلانی صاحب کو تحریک آزادی کا حقیقی ترجمان اور قائد سمجھتے تھے اور ان کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔گیلانی صاحب بتاتے ہیں کہ جب ان پر زیادہ پابندیاں نہ تھیں اور بھارت نے انھیں حج پر جانے کی اجازت دی تھی تو ارضِ پاک میں قاضی صاحب سے ان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں کیونکہ وہ بھی حج پر آئے ہوئے تھے، اس طرح دونوں قائدین نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور تحریک آزادی کے احوال و کوائف پر تفصیل سے بات چیت کی اور اس کے بعد مسلسل رابطے میں رہے۔
87 ء میں جب قاضی صاحب نے امارت سنبھالی تو مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد آزادی کی راہ ہموار ہو چکی تھی اور کشمیر کے نوجوان محسوس کر رہے تھے کہ پرامن جدوجہد کے ذریعے بھارت سے اپنا حق منوانے کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں اور بھارت کی قابض افواج نے مقبوضہ علاقے میں ظلم کی انتہا کر دی ہے، اس لیے مسلح جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ وہ افغانستان میں جہاد کے سبب سوویت یونین کو گھٹنوں کے بل گرتے دیکھ چکے تھے، مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیری نوجوانوں کی اکثریت جہاد کے حق میں تھی۔ چنانچہ ضروری ہوم ورک کے بعد مقبوضہ علاقے میں جہاد شروع ہوا تو حکومت پاکستان نے بھی اس کی تائید کی اور پاکستانی نوجوان بھی جہاد کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ جماعت اسلامی نے قاضی صاحب کی قیادت میں جہادِ کشمیر کی بھرپور حمایت کی۔
قاضی صاحب اپنی ذات میں خود مجاہد تھے۔ باطل کے خلاف جہاد کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور شہادت کی تڑپ انہیں بے چین کیے رکھتی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں جہاد کا غلغلہ بلند ہوا تو قاضی صاحب دل و جان سے اس کے پشتیبان بن گئے۔ دامے، درمے،سخنے ہر اعتبار سے مجاہدین کشمیر کی مدد کو اپنا وظیفہ بنا لیا۔ ان کا بس چلتا تو وہ خود بھی ہتھیار بدست ہو کر دشمن سے جا بھڑتے اور اپنے سینے پر تمغہ شہادت سجا لیتے، لیکن قدرت نے انہیں سیاسی و سفارتی محاذکیلئے چناتھا۔ اس محاذ پر انہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں کھپا دیں۔ قاضی صاحب کی رہنمائی میں متعدد جہادِ کشمیر کانفرنسیں منعقد ہوئیں، پاکستان میں بھی اور آزاد کشمیر میں بھی۔ ان کانفرنسوں میں قاضی صاحب کا خطاب کلیدی ہوا کرتا تھا جسے سننے کے لیے نوجوان چاروں طرف سے امڈ آتے تھے اور قاضی صاحب کے حق میں نہایت پرجوش نعرے لگاتے تھے۔ جہادِ کشمیر کا جو سیاسی مورچہ قاضی صاحب نے پاکستان میں سنبھال رکھا تھا، وہی مورچہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر میں سنبھالے ہوئے تھے۔ وہ قاضی صاحب کی طلب کردہ جہادِ کشمیر کانفرنسوں میں ٹیلی فونک خطاب فرماتے اور نوجوانوں میں شہادت کی لگن پیدا کر دیتے تھے۔ اس طرح دیکھا جائے تو دونوں قائدین جہادِ کشمیر میں نوجوانوں کے دوش بدوش حصہ لے رہے تھے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...