نئے سال کی چوتھی وائرس 

Jan 06, 2022

2022ء کا آغاز ہو چکا مگر اس نئے سال کے بارے میں پیشین گوئیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایک طرف دنیا بھر میں امن و سلامتی اور خوشحالی کی دعائیں مانگی جارہی ہیں اور دوسری جانب نادار ملکوں میں پھیلی بھوک و افلاس عالمی سطح پر شدت سے پھیلتی وبائوں‘ بیماریوں اور خشک سالی ایسے بحرانوں پر قابو پانے کیلئے عہدو پیماں اورفارمولے ترتیب دیئے جا رہے ہیں۔ دنیا کے 11 ارب 10 کروڑ افراد صاف پانی پینے سے محروم اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو مغربی قوتوں کے آگے دست سوال اٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ کووڈ19- جس کا آغاز دسمبر 2019ء میں ہوا‘ آج متعدد نئی جان لیوا ویریئنٹس میں تبدیل ہو چکی ہے۔ 
2020ء میں کرسمس ڈے اور نئے سال پر لندن میں 760 افراد زندگی کی بازی ہار گئے مگر اب جبکہ 2022ء کا آغاز ہو چکا‘ نئی لہر اومی کرون کی شدت سے انگلستان میں 2021ء کے کرسمس ڈے پر ایک ہزار 2 سو 81 افراد کو ہسپتالوں میں داخل ہونا پڑا جبکہ دنیا میں تیزی سے پھیلنے والی اومی کرون کے بارے میں اب تک کی جانیوالی تحقیق میں یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ یہ اب تک پھیلنے والی کووڈ۔19 کی تمام لہروں سے زیادہ جلد پھیلنے والی متعدی بیماری ہے جس کیلئے احتیاط ہر لحاظ میں لازم ہے۔ انگلستان میں روزانہ ایک ملین بوسٹر ویکسینشن لگانے کا گو ریکارڈ قائم کیاگیا ہے تاہم اموات کو روکنے کیلئے مزید حفاظتی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کے اقدام کو بھی ناگزیر قرار دیا جارہا ہے۔ 
ادھر عالمی ادارہ ٔ صحت نے واضح کر دیا ہے کہ کووڈ کی اس چوتھی لہر اومی کرون کی شدت میں اس سال مزید اضافہ کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایشیائی اور افریقی ممالک سمیت یورپ‘ کینیڈا اور امریکہ میں اس جان لیوا وبا کے پھیلائو میں کمی کے مواقع بہت کم ہونگے۔ تحقیقاتی اداروں نے اپنی بنیادی رپورٹس میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ Delta,Lambda اور Limbreta سے اومی کرون نسبتاً کمزور ضرور ہے مگر بیماری کی صورت میں یہ وبا بھیانک صورت اختیار کر سکتی ہے۔ پہلے بھی متعدد بار یہ بیان کر چکا ہوں کہ انگلستان میں منہ کو مخصوص مدت تک ڈھانپے رکھنے سے جوان دل رکھنے والے گوروں اور گوریوں کو ایسی بندش محسوس ہوتی ہے جو یہاں کے کھلے ڈلے ماحول کے قطعی برعکس ہے۔اس بات میں قطعی شک و شبہ نہیں کہ جان لیوا یہ وائرس 2022ء میں مزید شدت اختیار کرنے جا رہی ہے۔ بل گیٹس پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ اومی کرون اب دنیا کے ہر گھر کے دروازے پر دستک دینے والی ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ برطانیہ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مریض سامنے آچکے ہیں۔ وزیراعظم بورس جانسن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اومی کرون ہماری سوچ سے بھی زیادہ پھیل رہی ہے۔ نائٹس کلبس کو ایک مرتبہ پھر سے غیرمعینہ مدت کیلئے بند کر دیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب انگلستان میں روزانہ ایک ملین بوسٹر ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم کردیا گیا ہے۔ اس تناسب سے اب تک 32 ملین افراد کو بوسٹر لگائی جا چکی ہے تاہم سکاٹ لینڈ میں صورتحال بدستور مخدوش ہے۔ یہاں میں پھر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ ویکسین اور فیس ماسک علاج نہیں‘ محض ان بڑھتی وبائی لہروں سے عارضی بچائو ہے اس لئے اس جان لیوا وباء سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رہنے کیلئے احتیاطی تدابیر ناگزیر ہیں۔ اس حوالے سے برطانوی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی پاکستان میں اس وبا کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہے۔ ہمارے ہاں ہر کام ہی چونکہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جاتا ہے‘ اس لئے ڈر ہے کہ اس نئی لہر کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا پر نہ چھوڑ دیا جائے جبکہ کیسز میں اضافے کا آغاز ہوچکا ہے۔ 
لندن سے 45 میل دور Reading میں مقیم معروف کمیونٹی رہنما سابق میئر اور کونسلر گل خان کی جانب سے اگلے روز مجھے ایک تفصیلی مکتوب ملا جس میں انہوں نے نئے سال کی آمد کے حوالہ سے بعض اینکروں اور سیاست دانوں سمیت ان تجزیہ نگاروں کی خوب خبر لی ہے جو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ سفارش‘ رشوت اور بڑھتے ریپ کیسز کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ نئے سال کی خوشیوں‘ پارٹیوں دل دینے اور دل لینے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں‘ نئے سال کے ان چند ایام میں اومی کرون کس تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ ان دانشوروں کو قطعی فکر نہیں۔ 
ریڈنگ کی مقامی جامع مسجد کے سابق صدر چودھری نذیر کی طرح کونسلر گل خان بھی چونکہ ایک طویل ترین عرصہ سے یہاں مقیم اور برطانوی سیاست میں خوب متحرک ہیں‘ اس لئے پاکستان مخالف ہر لابی کابھرپور جواب دیتے ہیں۔ گل خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کا رونا بلاشبہ پہلی مرتبہ رویا نہیں جا رہا‘ گزشتہ حکومتوں نے بھی دل کھول کر آئی ایم ایف سے قرضے تو لئے مگر ان قرضوں کی سزا آج بھی ایک غریب اور نادار پاکستانی بھگت رہا ہے۔ موجودہ حکومت مہنگائی کے خاتمے کیلئے گو کوشاں ہے‘ غریب اور پچاس ہزار سے کم تنخواہ دار کو صحت کارڈ بھی دے دیا گیا ہے مگر افسوس مہنگائی کا جن ابھی تک بے قابو ہے۔ ٹی وی‘ یوٹیوب اینکروں اور بعض دانشوروں کو چونکہ اپنا تشخص زیادہ مقدم ہے اس لئے غریبوں کے مسائل کے حل کی تجاویز کے بجائے وہ اپنا فوکس نئے سال کی رنگینیوں پر رکھے ہوئے ہیں۔ ’’رنگینیوں‘‘ اور ان رقصوں کے پس پردہ اصل عوامل کیا ہیں‘ یہ تو مذکورہ بالا طبقہ ہی جانتا ہے ورنہ غربت‘ مہنگائی اور انصافی کے ان لمحات میں دیہاڑی دار مزدور اور سفید پوش کو نئے سال کی رنگینیوں سے کیا لینا دینا؟
٭…٭…٭

مزیدخبریں