سیلاب زدہ علاقوں میں زچہ بچہ کے مسائل

پاکستان کو سال 2022 میں بدترین سیلاب کا سامنا رہا۔ اس سیلاب نے ملک کے چار صوبوں کو متاثر کیا۔ آبادی کے لحاظ سے سب بڑے صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقے بھی اس آفت سے دوچار ہیں۔ پانچ مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک سیلاب سے متاثرہ لاکھوں افراد کو دوبارہ آباد نہیں کیا جا سکا۔ عارضی رہائش گاہوں میں قیام پزیر سیلاب متاثرین کو جہاں کھانے پینے اور صحت کے مسائل کا سامنا ہے وہیں ایک بڑا مسئلہ حاملہ خواتین کو بھی درپیش ہے۔ اگست کے مہینے میں جب سیلاب کی تباہ کاریاں ان علاقوں میں جاری تھیں تو اس وقت سینکڑوں خواتین کی زچگی ان عارضی کیمپوں میں ہوئی۔اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے نجی تنظیموں اور میڈیا نے مہمات بھی چلائی۔ عارضی خیمہ بستیوں میں مقیم حاملہ خواتین پانچ مہینے گزرنے کے بعد ابھی بھی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے بدستور مسائل کا شکار ہیں۔یونیسف کی رپورٹ کیمطابق سیلاب سے پاکستان میں تین صوبوں کے 116اضلاع متاثر ہوئے جبکہ ان میں سے 72 کو سیلابی پانی نے برے طریقے سے متاثر کیاجبکہ6.4 ملین لوگوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے ملک بھر میں 6 لاکھ چالیس ہزار حاملہ خواتین ہیں۔ جن کو طبی سہولیات کی ضرورت ہے جبکہ 4 ملین بچوں کو بھی صحت کی سہولیات چاہیے۔محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ڈی جی خان ، راجن پور، مظفر گڑھ کی 88 یونین کونسلز سیلاب سے متاثر ہوئیں اورتقریباً 20لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ڈی جی خان کی چھ یونین کونسلز سیلاب سے برے طریقے سے متاثر ہوئیں ، جبکہ چوبیس میں درمیانے درجے کا سیلاب آیا راجن پور کی 28یونین کونسلز سیلاب سے شدید متاثر ہوئیں جبکہ 4 میں درمیانے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ان تمام اضلاع میں حملہ خواتین کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ ہے محکمہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق ان اضلاع میں حاملہ خواتین کی تعداد 80 ہزار سے زائد ہے ، جبکہ پاپولیشن کونسل کی رپورٹ کیمطابق یہاں حاملہ خواتین کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار سے زائد ہے۔ جبکہ ان اضلاع میں ایک لاکھ 52 ہزار سات سو 37 خواتین ایسی ہیں جو بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں۔ان اضلاع میں 6 سے پانچ سال کے بچوں کی تعداد 1لاکھ 33ہزار 5سو 5 ہے۔ ان میں سے 18 فیصد بچے محکمہ صحت کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ 
پاپولیشن کونسل کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثر علاقوں میں پانچ سال تک 9 لاکھ 40 ہزار بچوں کو حفاظتی ٹیکوں اور صحت مند خوراک کی ضرورت ہے۔ڈی جی خان میں حاملہ خواتین کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے۔ محکمہ صحت کے دعوے کیمطابق اسی ہزار سے زائد خواتین کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے اور ان کو ادویات کی فراہمی جاری ہے۔ محکمہ صحت کیمطابق ڈی جی خان کی تین تحصیلوں کیلئے ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہے۔ ایک تحصل ہیڈ کوارٹر،9 رورل ہیلتھ سینٹر۔ 53 دیہی ہیلتھ یونٹس جبکہ 23 دیہی ہیلتھ ڈسپنسریاں ہیں۔ زچہ و بچہ پروگرام کے تحت ان تین اضلاع میں9 خواتین میڈیکل آفیسرز،9 لیڈی ہیلتھ ورکرز اور 231 کمیونٹی مڈ وائفسز کام کررہی ہیںاور ڈی جی خان میں مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال بھی قائم کیا جارہا ہے۔"سرکاری ہسپتال میں سہولت نہ ملنے کے بعد میں نے ادھار پیسے لیکر نجی ہسپتال میں ڈلیوری کروائی"یہ کہانی ہے ڈی جی خان کی بشری کی جن کی ڈیلیوری دو ماہ قبل ہوئی۔
 24 سالہ بشری کاکہنا ہے کہ سیلاب آنے کے بعد انکے خاندان کو امدادی کمپ میں منتقل کردیا گیا۔ جب سیلاب آیا تو یہ حاملہ تھیں۔ سیلاب کی وجہ سے انکے علاقے میں قائم طبی مرکز صحت بھی بند ہوگیا جس کی وجہ سے ان کو ماہانہ چیک اپ اور ادویات کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہا۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔حاملہ خواتین کے مسائل کے حوالے سے پروفیسر آف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ثاقب صدیق کاکہنا ہے کہ عام حالات میں ایک ہسپتال میں گائنی کی وارڈ میں دس بیڈز پر ایک گائنی کی ڈاکٹر ہونی چاہیے اور حاملہ خواتین کو ذچگی سے پہلے پیچدگیوں سے بچانے کیلئے ماہانہ چیک اپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر حاملہ خواتین میں خون کی کمی کا سامنے آتی ہے تاہم سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اگر ڈاکٹر موجود نہیں ہیں تو مڈ وائف ذچگی کی ذمے داری پوری کرسکتی ہیں تاہم انکے پاس ڈبلیو ایچ او کی منظور شدہ ڈیلیوری کٹ اور جان بچانے والی ادویات لازمی ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر ثاقب کاکہنا ہے کہ سیلاب جیسی صورتحال میں حاملہ خواتین کو ذچگی سے پہلے آئرن اور کیلشئم کی ضرورت ہوتی ہے۔ محکمہ صحت پرائمری اینڈ سکینڈری کے ترجمان مقبول ملک کاکہنا ہے کہ سیلاب کے دوران اور اسکے بعد متاثر علاقوں میں طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے خصوصی حکمت عملی بنائی گئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن