دینی جماعتوں سے دردمندانہ اپیل

ملک ازبکستان سے میرا ایک روحانی رشتہ ہے کیونکہ ساڑھے نو سال اپنے ملک اور اپنے بنک کی ڈیوٹی ادا کی ہے۔ وٹس ایپ پرکسی کی رائے پڑھی جو اگر حقیقت پر مبنی نہ بھی ہو تو ہمارے ملکی حالات پر بالکل صادق آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دینی جماعت ازبکستان کے دور دراز علاقے میں گئی۔ وہاں اذان اور وضو کے بعد ہمارے نمازیوں نے جوتیاں پکڑیں اور مسجد کے اندر چل پڑے۔ کسی ازبک نے پوچھا کہ یہ کیا۔ اس پر ہمارے بندے نے کہا کہ پیچھے سے جوتیاں اٹھائے جانے کا خطرہ ہے۔ اس لئے انہیں آگے رکھیں گے۔ ازبک بہت حیران ہوا اور اس نے کا کہ آپ کے ملک میں مسجدسے بھی جوتیاں اٹھا لی جاتی ہیں۔ اس بھلے آدمی کوکیا پتہ کہ یہاں مسجد کی ٹونٹیاں‘ پنکھے‘ یو پی ایس کی بیٹریاںاور لائوڈ سپیکر تک چرا لئے جاتے ہیں۔ لہٰذا امام بخاری اور حضرت نقش بندی کے دیس کاس بندے نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ ہماری اصلاح کی بجائے اپنے معاشرے کو سدھاریں۔ان بے چاروں کو کیا پتہ کہ ہمارے ہاں کرپشن چوریاں‘ فراڈ‘ جھوٹ‘ سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال‘ بے ایمانی‘ عہدے کا ناجائز فائدہ‘ سفارش‘ رشوت کا کلچر اور میرٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر دفتر کا ہیڈ ہر وقت عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے میٹنگوں میں مشغول رہتاہے۔ جاحت مند ذلیل و خوار اور رسوا ہو رہے ہوتے ہیں۔ اپنی تنخواہ کو درخور اعتنا نہیںسمجھتے اور دیہاڑی لگانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ ہر طرف اچھائی ختم ہو گئی ہے۔ بس برائی ہی برائی کا راج ہے۔ دودھ میں پانی تو ٹھیک تھا اب تو کیمیکل والا دودھ مردہ جانوروں کی چربی سے بنایا گیا گھی‘ شہد میں شیرا‘ مرچوں میں پسی ہوئی اینٹیں‘ کالی مرچ میں گھوڑے کا دانہ‘ دو نمبر دوائیاں غرض کہ کس کس چیز کا رونا روئیں۔ ہر میدان کے لوگ بے لگام ہو چکے ہیں اور یہ سب کچھ حکومتی اکابرین کی آنکھوں اور منہ میں نوٹ بھرنے سے ہورہا ہے۔
دیکھیں سب کو پتہ ہے کہ ہمارے ملک کے حالات بہت خراب ہیں اور جن جن لوگوں کے رشتہ دار باہر کے ملکوں میں ہیں‘ وہ آئے روز یہ میسج بھیجتے رہتے ہیں کہ آپ باہر آجائیں اور بھاگ جائیں۔ پاکستان سے اور سارا پیسہ بنکوںسے نکال کر لیں۔ ہم کیوں بھاگیں یہاں سے یہ ہمارا ملک ہے۔ اس سے محبت ہے۔ ہمارے بچے اور والدین یہاں ہیں۔ ہمارے بزرگوں کی قبریں یہاں ہیں۔ ہمارے اسلاف نے بڑی مشکل سے قربانیاں دیکر یہ حاصل کیا ہے تو اگر ملک میں مشکل وقت آئے یا گھر پر مشکل وقت آئے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ گھر چھوڑ کر بھاگ جائیں اور غیروں کے گھر میں جا کر رہنا شروع کردیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے اور مقصد آج ابھی اس وقت صرف یہ ہے کہ ان مسائل سے نکلنے کا حل کیا ہے۔ ہمارے پاس قرآن پاک ہے۔ ہم اللہ کے ماننے والے ہیں۔ تو کیا ہمیں وہاں سے کوئی مدد اور رہنمائی نہیں ملتی۔ ایک سوال ہے کہ کہ ہم ان مسائل سے کیسے نکلیں۔ ایک عام آدمی کے ذمہ کیا ہے اور وہ کیا سوچتا ہے۔ وہ کیا کر سکتا ہے۔ چونکہ ایک عام آدمی تو یہی سوچتا ہے کہ میرے بس میں تو کچھ نہیں ہے۔ سٹیٹرنگ وہیل جن کے ہاتھ میں ہے وہ خودسری کا شکار ہیں۔ وہ جس طرف معاشرے کو لیکر جائیں گے وہیں جائیگا۔ معاشرہ ان کے پیچھے پیچھے ہے۔ یہ معاشرہ جو ہے اس کا کلچر ایک بھیک مانگنا کلچر ہے اور اس کی بنیاد پر ہی ہماری معیشت چل رہی ہے یا چلائی گئی ہے تو اس میں عام آدمی تو کوئی مقصود نہیں ہے۔ کامن بندے نے کیا کرنا ہے۔ تو کیا ایک عادمی جو ہے اسکے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ وہ کچھ نہیں کر سکتا تو میں قرآن سے آج آپ کو حل بتاتا ہوں۔ اگر لوگوں کی اکثریت قرآن پر آجائے تو اللہ تعالیٰ حالات کو بدل دینگے کیونکہ حالات جس جگہ پر پہنچ گئے ہیں ان کو بدلنے کیلئے اب درست چلانے والے ہی چاہئے۔اول معاشرہ اتنا خراب ہو گیا ہے کہ کوئی مشینری اورٹولز عمل نہیں کرسکتے تو کیا کیا جائے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ استغفار شروع کر دیں۔ چھوٹا ، بڑا، امیر ، غریب ہر طبقے کا حکمران اوپر سے لیکر نیچے تک سب لوگ اللہ سے سچے دل سے استغفار کریں۔ صدقے دل سے اللہ سے استغفار کریں۔ سچے دل سے اللہ سے توبہ کریں کہ ہم جوگناہ کرتے ہیں۔ گناہ صرف حقوق اللہ کے نہیں ہیں بلکہ کرپشن، چوریاں، جھوٹ، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال اور بے ایمانی یہ سارے گناہ ہیں جو اللہ کو سخت ناپسند ہیں۔ چھوٹوں پر ظلم، میرٹ کا نہ ہونا، کرپشن اور سفارش کاکلچر جب سے پاکستان بنا ہے یہ سب گناہ ہم نے کئے ہیں ہمیں سچے دل سے استغفار کرنا چاہیے۔ ہم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور استغفار کریں تو یقین کریں کہ اللہ خود حالات کو بدلیں گے۔ آپ جتنے مرضی پلان بنا لیں اُن پر عمل کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر آپ خود عمل کرینگے تو آپکی زندگی میں تبدیلی آ جائیگی اور اگر آپ اجتماعی طور پر عمل کرینگے تو آپکی اجتماعی زندگی میں تبدیلی آ جائیگی۔ جب معاشرے میں اچھائی زیادہ ہو جاتی ہے تو حالات بہتر ہو جاتے ہیں اور جب برائی زیادہ یا اچھائی کم یا ختم ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس معاشرے کو ختم کر دیتا ہے۔ تمام دینی و تبلیغی جماعتیں کچھ وقت کیلئے اپنے ملک کی طرف توجہ کر کے عوام کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں ورنہ مسلمانوں کے حالات قیامت کی نشانیاں بتا رہے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن