میں اس کے لئے کبھی تحفہ نہیں لایا تھا ۔ کھلاتا پلاتا ہوں گھر کا خرچہ دیتا ہوں۔پھر تحفے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اکثر اسی طرح سوچتا تھا ۔ ماں نے ایک دن اپنی شادی کی سالگرہ پر مجھے خالی ہاتھ آتے دیکھا تو پوچھا ۔ کیا کوئی تحفہ نہیں لائے ہو بہو کے لئے؟
کیوں ماں؟ میں خود ہی تو ایک تحفہ ہوں ۔
میں نے بھونڈا مذاق کر کے خود ہی ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ ماں کہنے لگی تم جو اس کو خرچہ دیتے ہو وہ احسان نہیں۔ وہ رب کی طرف سے تم پر فرض ہے اور فرض کی بروقت ادائیگی پر تمہارا ا ذمہ دار ہونا تو ضرورظاہر کرتا ہے لیکن کسی صورت احسان نہیں۔ اور جہا ں تک تحفے کی بات ہے تو ضروری نہیں کہ وہ کوئی مہنگا تحفہ ہی ہو۔ ضروری نہیں وہ سونے کا سیٹ یا ہیرے کی انگوٹھی ہی ہو۔۔ وہ باہر کیاری میں کھلا گلاب کا پھول بھی ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ دینے والے کی نیت میں فقط محبت اور ہمیشہ کا ساتھ ہو۔
میں اٹھا باہر کیاری سے ایک پھول بڑی حفاظت سے توڑا اور برآمدے میں جا کر بیگم کے ہاتھ میں بڑی عزت سے تھمایا ۔ اور جب میں کھانا کھا کرکمرے میں آیا تو وہ ایک فقط ایک گلاب کا پھول ۔کمرے کے وسط میں موجود ایک گلدان کی زینت بنا پورے کمرے کو مہکا رہا تھا۔