’’موت بھی، ’’کو کلاچھپا کی‘‘ کھیلتی ہے‘‘

معزز قارئین !۔ آج جمعتہ المبارک اور 6 جنوری 2023ء ہے ۔ دو دِن پہلے 4 جنوری کو، ( میرے بزرگ دوست ) ضلع گجرات (موضع بھدر) کے ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ،(مرحوم) چودھری غلام حیدر اقبالؔ کے عزیز و اقارب اور اُن کے دوستوں نے اُنکی نویں برسی منائی۔ چودھری صاحب کا دینی اور دُنیوی امور پر مطالعہ بہت وسیع تھا، اُنہیں فارسی ، اردو اور پنجابی کے ہزاروں اشعار یاد تھے جو وہ اپنی گفتگو میں موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرتے تھے ۔ 
’’ عا شقِ رسول اور شاعرِ مشرق علاّمہ محمد اقبال کے کلام کے تو موصوف ’’ حافظ ‘‘ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ’’ اُنکے دوست احباب اُنہیں عاشقِ اقبال کہنے لگے اور پھر اقبالؔ اُن کے نام کا حصّہ بن گیا۔ چودھری غلام حیدر اقبالؔ کے والد ِ (مرحوم) چودھری امام دین بھی تحریک پاکستان کے کارکن تھے ۔ 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک ) لاہور میں ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے اجلاس میں شریک تھے۔ اُنہوں نے مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کِیا۔ چودھری غلام حیدر اقبال ؔ کے بڑے بھائی ، چودھری غلام نبی مرحوم کراچی میں ’’ محمد علی ٹرام وے ‘‘ کمپنی میں سینئر آفیسر تھے ایک بھائی چودھری محمد اقبال زمیندار تھے اور چودھری محمد ریاض اختر بلڈر ہیں ۔ 
معزز قارئین !۔ چودھری غلام حیدر اقبالؔ سے میری دوستی اُس وقت ہُوئی جب اسلام آباد میںمیری سب سے پیاری بیٹی عاصمہ کی شادی چودھری غلام حیدر اقبالؔ کے چھوٹے بھائی چودھری محمد ریاض اختر کے بیٹے معظم ریاض چودھری سے ہُوئی لیکن، میری اُن سے پختہ دوستی اُس وقت ہُوئی، جب، میرے اور اُنکے مشترکہ بزرگ دوست سابق انسپکٹر جنرل پولیس آف پنجاب / اسلام آباد اور (اُن دِنوں) وزیراعظم میاں نواز شریف کے چیف سکیورٹی آفیسر ضلع بھکر کے ملک محمد نوازکی شفقت اور برکت ہم دونوں کے ساتھ شامل ہوگئی۔ 
26 ستمبر 2009ء کو میرے داماد معظم ریاض چودھری اور میری بیٹی عاصمہ کا ولیمہ تھا۔ ملک محمد نواز صاحب کو میرے داماد معظم ریاض کے والد چودھری محمد ریاض اختر نے مدعْو کِیا تھا۔ چودھری صاحب نے میرا ملک صاحب سے تعارف کرایا تو اُنہوں نے انہیں اپنی بات مکمل نہیں کرنے دی اور کہا ’’اثر چوہان میرے سارے شاگرداں وِچّوں سب توں بہادر شاگرد اے  تْسیں ایہدے نال میرا تعارف نہ کرائو!‘‘ ۔ معزز قارئین!۔دس دن بعد مجھے ،ملک صاحب کا ٹیلی فون آیا اور بولے’’اثر چوہان بھائی !۔ مَیں تیتھوں بوہت شرمندہ ہاں ۔مَینوں تے کل پتہ چلّیا اے پئی معظم ریاض نال تیری دھی دا ویاہ ہویا اے‘‘ ۔پھر میرے اُستاد محترم اپنی بیگم صاحبہ کو ساتھ لے کر میرے گھر تشریف لائے ،دونوں نے میری بیٹی اور داماد کو قیمتی تحائف دئیے!‘‘۔
’’ہائی سکول لالہ موسیٰ !‘‘
چودھری محمد ریاض اختر اکثر لالہ موسیٰ کے گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول کے بارے بتاتے ہیں کہ ’’بانیـ ’’اسلامیہ ایجوکیشن سوسائٹی ‘‘ ڈاکٹر محمد امین کی سرکردگی میں 1946ء کے الیکشن میں لالہ موسیٰ ہائی سکول کے طلبہ نے (جن میں مَیں بھی تھا ) چودھری غلام حیدر اقبالؔ نے ’’ انڈین نیشنل کانگریس ‘‘ کے مقابلے میں ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے امیدواروں کی کامیابی کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ ملک محمد نواز صاحب پولیس سروس میں آنے  سے پہلے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں انگریزی کے اُستاد تھے اور مَیں 1956ء سے 1957ء تک اُن کا شاگرد رہا لیکن، جس عہدے پر وہ رہے ،میرا اُن سے میل جول رہا۔ وہ محکمہ پولیس کے ’’ گاڈفادر‘‘ کہلائے ۔ میری جب بھی اُن سے ملاقات ہوتی تو، وہ اپنے رفقائے کار سے کہا کرتے تھے کہ’’ اثر چوہان میرا بہت ہی بہادر شاگرد ہے! ‘‘۔ 
ملک محمد نواز صاحب 1980ء میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے ضلع لاڑکانہ میں  ڈی  آئی جی   تھے اور چودھری غلام حیدر اقبال ؔاُنکے ماتحت سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور جب 1981ء سے 1986ء تک ملک صاحب اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس رہے تو میری اکثر اُن سے ملاقاتیں ہوتی تھیں ۔ دسمبر 1991ء میں جب، وزیراعظم نواز شریف سینیگال کے داراُلحکومت ڈاکار گئے ، ملک صاحب اُنکے چیف سکیورٹی آفیسر تھے اور مَیں  میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُنکے ساتھ تھا۔  معزز قارئین ! چودھری غلام حیدر اقبالؔ کے تین بیٹے ہیں ۔ وقار حیدر کرنل ہیں ، ذوالفقار حیدر اور جواد حیدر ماہرین تعلیمات۔ مرحوم کی پانچ بیٹیوں ،ثمینہ حیدر ، شیریں حیدر، روزینہ حیدر، لبنیٰ حیدر اور اسماء حیدر میں سب سے زیادہ علمی وراثت ، عزیزہ شیریں حیدر ،اُن کے شوہر (پھوپھی زاد ) میجر جنرل مختار احمد نے حاصل کی ۔ میجر جنرل (ر)مختار احمد 1995ء سے 1999ء تک پاکستان ہائی کمیشن برطانیہ میں ڈیفنس اتاشی  رہے ۔ اُنہوں نے برطانوی ’’ فرزندان پاکستان‘‘ کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے آمادہ کِیا۔ شیریں حیدر کئی پسندیدہ کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ 
چودھری غلام حیدر اقبالؔ صاحب کی آخر ی آرام گاہ موضع بھدر میں ہے ۔24 اگست 2019ء کو جب، اُن کی اہلیہ ٔ  محترمہ نذیر بیگم کا 80 سال کی عُمر میں انتقال ہُواتو، اُنہیں بھی بھدر ہی میں چودھری غلام حیدر اقبالؔ صاحب کے پہلو میں دفن کِیا گیا ، چند دِن بعد مَیں مرحومہ کے بیٹوں ، بیٹیوں اور برادرم چودھری محمد ریاض اختر سے تعزیت کیلئے گیا تو، اُنہوں نے ہم سب سے کہا کہ ’’ مَیں 42 سال سے اسلام آباد میں سرگرم ہوں اور مَیں تو ،اسلام آباد میں دفن ہونے کو ترجیح دوں گا‘‘ ۔ چودھری صاحب چاہتے ہیں کہ اُن کا ڈومیسائل اسلام آباد کا ہو۔ کبھی کبھی مَیں بھی سوچتا ہُوں کہ’’ میری اہلیہ ٔ (مرحومہ )نجمہ اثر چوہان اسلام آباد کے قبرستان میں اکیلی کیوں رہے؟ کیوں نہ انتقال کے بعد میرا ڈومیسائل بھی اسلام آباد ہی کا ہو؟معزز قارئین !۔ ’’باب اُلعلم ‘‘ حضرت علی مرتضیٰؓ نے فرمایا کہ ’’موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے!‘‘ ۔ میرا اِس پر ایمان ہے اوراِسی لئے مَیں ،موت کو’’ کوکلا چھپاکی ‘‘ کا کھیل سمجھتا ہُوں۔ جب میرا کوئی رشتہ دار ، دوست یا واقف کار ، خالق حقیقی سے جا ملتا ہے تو ،مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا  موت بھی ہم سب کے ساتھ ’’کوکلا چھپاکی‘‘ کھیلتی ہے؟ 

ای پیپر دی نیشن