نئے سال کا آغاز ہوتے ہی بھارتی میڈیا 2جنوری 2016ء کو بھارتی ایئر فورس کے پاکستانی سرحد کے قریب اڈے پر کیے گئے حملے کو لے کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان برپا کردیتا۔ہر سال ایئر بیس پر حملے کو ڈرامائی انداز میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے ممبئی کے فلم اسٹوڈیو میں بھاری بجٹ سے تیار کی گئی ایکشن سے بھر پور فلم کی ناکامی کا تجزیہ کیا جارہا ہو کہ پاکستان کی وجہ سے بھارتی فلم کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود بھارت سرکار 2016ء سے آج تک پھٹانکوٹ ایئر بیس پر حملے میں پاکستان کے خلاف نہ تو کوئی ثبوت سامنے لاسکی ہے نہ ہی حملہ آوروں کی تعداد پر بھارتی وزارت دفاع اور انڈین ایئر فورس کے افسران متفق ہوسکے ہیں۔ یہ تعداد جوپہلے روز 5بتائی گئی پانچ جنوری کو جب حملہ آوروں کے خلاف آپریشن مکمل ہوگیا تو حملہ آور سات اور بعد ازاں یہ تعداد گھٹ کر 4ہوگئی۔ بھارت کی طرف سے دی گئی ابتدائی خبروں کے مطابق حملہ آور یکم اور 2جنوری کی درمیانی شب پٹھانکوٹ ایئر بیس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جہاں انہوں نے خود کار ہتھیاروں سے سکیورٹی پر موجود گارڈز کو نشانہ بنایا اور اسکے بعد ’’چل سو چل‘‘۔ یعنی حیران کن طور پر چار دن اور چار راتوں تک گنے چنے حملہ آور ایئر بیس کے اندر انڈین ایئر فورس اور بری فوج کے کمانڈوز کے ساتھ برسرپیکارر ہے۔ دہشت گردوں نے نہ کچھ کھایا نہ پیانہ آرام کیا بس لڑتے رہے اور پھرمار ے گئے ۔ پاک بھارت سرحد پر لگی دو رویہ خاردار باڑ جس میں ہمہ وقت ’’ہائی وولٹیج کرنٹ ‘‘دوڑتا رہتا ہے ،خار دار باڑ کے ساتھ حساس قسم کے سنسر الگ سے نصب ہیں، اگر بلی بھی وہاں سے گزرے تو سنسر اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رات کے وقت سرحدی باڑ پرلگے برقی قمقموں کی روشنی چاند پر جانے والے سیاروں سے بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔ اس کے باوجود بھارت کے بقول پاکستان سے 4، پانچ یا سات دہشتگردوں کا گروہ سرحد پار کرنے کے بعد پٹھانکوٹ پہنچ کر مرکزی دروازے سے ایئر بیس کے اندر داخل ہونے میں بھی کامیاب ہوگیا۔
اس کہانی کا دلچسپ موڑ وہ منظر کشی ہے جو بھارت کے تحقیقاتی افسران نے بھارتی میڈیا کے سامنے بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی دہشتگردوں نے دریا ئے راوی کے اس خشک حصے سے سرحد عبور کی جہاں خاردار باڑ نہیں تھی۔بھارتی علاقے میں پہنچنے پر ان کی مد بھیڑ دریا کے کنارے پٹھانکوٹ میں تعینات پولیس کے ایک ڈی ایس پی سے ہوئی جو سرحد کے قریب ایک قدیمی مندر میں چڑھاوا چڑھانے کے بعد آدھی رات کو واپس پٹھانکوٹ ضلع کی طرف لوٹ رہا تھا ۔ کچی سڑک پر پولیس کی جیپ کو دہشتگردوں نے روکا۔ڈی ایس پی کو اکیلاپاکر اسے یرغمال بناتے ہوئے وہ پٹھانکوٹ پہنچے۔شہر میں داخل ہونے سے پہلے ڈی ایس پی کو باندھ کرویرانے میں پھینک دیا گیا اور اس کی جیپ پر سوار ہوکر دہشتگرد پٹھانکوٹ ایئر بیس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ راستے میں کسی بھی چیک پوسٹ یا سکیورٹی پر تعینات پولیس والوں نے پولیس افسر کی جیپ کو روکنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ دن چڑھے جب راہگیروں نے بندھے ہوئے ڈی ایس پی کو کھولا تو اس نے چند مسلح افراد کی طرف سے اپنے اغواکا ماجرا سنایالیکن اس وقت تک دہشتگرد پٹھانکوٹ ایئر بیس میں داخل ہو کر مار ڈھار کا آغاز کر چکے تھے ۔ بھارت سرکار نے حملے کی اطلاع ملتے ہی جیش محمد اور اسکے سربراہ مولانا اظہر مسعود کو اس کارروائی میںملوث قرار دیتے ہوئے پاک فوج اور آئی ایس آئی کو حملے کا منصوبہ ساز قرار دیکر میڈیا کے ذر یعے ماتم برپا کردیا ۔ الزامات کی بوچھاڑ اس قدر زوردار اندازسے کی گئی کہ پاکستان کے اندر سے بھی بعض افراد نے بھارتی الزامات کو سچ سمجھنا شروع کردیا۔ پاکستان نے فوری طور پر بھارتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دہشت گردی کی پُر زور الفاظ میں مذمت کی اور بھارت کو دہشت گردوں کے خلاف تحقیقات میں ہرطرح کا تعاون کرنے کی یقین دہانی کرادی۔ بھارت نے سمجھا پاکستان کی طرف سے تحقیقات میں تعاون کا بیان روایتی نوعیت کا ہے ۔ لیکن امریکہ کی طرف سے پاکستانی تعاون کی پیشکش کو قابل تحسین قرارد یے جانے کے بعد بھارت مجبور ہوگیا کہ وہ پاکستان کی پیشکش کو قبول کرے ۔پاکستان میں بھارتی الزامات کی بنیاد پرجیش محمد کی قیادت کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے حفاظتی تحویل میں لیے جانے کے بعد پاکستان کی طرف سے خفیہ اداروں کے افسران پر مشتمل ایک تفتیشی ٹیم کا اعلان کردیا گیا جس نے بھارت میں پٹھانکوٹ ایئربیس پہنچ کر بھارتی الزامات کی حقیقت کا جائزہ لینا تھااور تحقیقات میں بھارت کی مدد کرناتھی۔ پاکستان سے 5افراد پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم 28مارچ 2016 ء کو پٹھانکوٹ پہنچی جہاں اس نے ایئربیس کے متاثرہ مقامات کا جائزہ لینا تھا اور دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے والے انڈین ایئرفورس کے سیکورٹی گارڈز سے بات چیت کرنی تھی جو 96گھنٹے تک دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے رہے۔ انہوں نے لڑائی کے دوران زخمی ہونیوالے بھارتی فوجیوں سے بھی ملنا تھا۔ پاکستان سے جانیوالی تحقیقاتی ٹیم نے تین روز تک پٹھانکوٹ میں قیام کیا۔ انہیں نہ تو ایئربیس کے اندر لے جایا گیا نہ ہی انہیں ان افراد تک رسائی دی گئی جویکم اور 2جنوری کی درمیانی شب ایئربیس کے داخلی راستے پر سیکورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے یا دہشتگردوں سے لڑتے ہوئے زخمی ہوئے تھے۔ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے سیکورٹی والوں کے لواحقین سے بھی نہیں ملنے دیا گیا۔اس عرصہ میں صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں پوری دنیا کامیڈیا پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کی پٹھانکوٹ میں موجودگی پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس عرصہ میں دہشتگردوں کی پٹھانکوٹ ایر بیس میں داخل ہونے کی کہانی البتہ ضرور تبدیل ہوگئی۔ کہانی میں لائے گئے نئے موڑ کیمطابق دہشت گرد ایئربیس کے باہر ویران جنگل میں پانچ سے چھ فٹ اونچی خود رو سرکنڈوں کی گھاس میں چھپتے ہوئے ایئربیس کی 13فٹ بلند دیوار تک پہنچے ۔ جہاںدرخت پر چڑھ کر ۔اس کی شاخ کے ذریعے ایک دہشت گرد نے دیوار پر اتر کر پلاسٹک کی رسی کے ذریعے دیگر دہشت گردوں کو ایئربیس کے اندر تک پہنچنے میں مدد کی ، یہ رسی تحقیقات کرنے والوں کو دہشتگروں کیخلاف کارروائی مکمل کیے جانے کے بعد سیکورٹی والوں کو دیوار پر لٹکی ہوئی ملی۔تبدیل شدہ نئی کہانی کیمطابق اس دیوار کو رات کے وقت روشن رکھنے کیلئے نصب سرچ لائٹس حملے کی رات اچانک خراب ہوگئی تھیں۔ اس دلچسپ کہانی کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت آج تک پٹھانکوٹ ایئربیس پر مارے گئے دہشتگردوں کی فوٹو، سی سی ٹی وی فوٹیج یا ان کی شناخت سامنے نہیں لا سکا۔ نہ ہی 28مارچ 2016 ء کو پاکستان سے جانیوالی پانچ رکنی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے انکے حقائق رکھے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے پٹھانکوٹ ایئربیس پر کیے گئے حملے کو بھارت کا اپنا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘قرار دیا تو اسکے بعد بھارت کے میڈیا نے بھی بہت سے سوالات اٹھادیے اور ایئربیس کے اندر چند دہشتگردوں کی طرف سے بھارتی کمانڈوز کے ساتھ جاری رہنے والے مقابلے کو ناقابل یقین قراردیدیا جبکہ بھارتی کمانڈوز کو فضاء میں گردش کرنے والے آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی حاصل تھی۔ بھارت کے اندرجہاں اس وقت پاکستان کیخلاف پروپیگنڈہ مہم جاری ہے اب وہیں یہ آوازیں بھی اٹھنے لگی ہیں کہ 25دسمبر 2015 ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کابل سے واپسی پر لاہور میں اچانک قیام پر بھارت میں فوج اور خفیہ ادارے ناخوش تھے۔ اس غیر اعلانیہ دورے کے بعد 6جنوری 2016 ء کو پاک بھارت امن مذاکرات کیلئے دونوں طرف سے وفود کی ملاقات طے ہوچکی تھی ۔جسے روکنے کیلئے بھارتی سیکورٹی اداروں نے پٹھانکوٹ ایئربیس پردہشت گرد حملے کا کھیل رچایا اور پروپیگنڈہ شروع کردیاگیا کہ پاکستان کے سیکورٹی ادارے امن مذاکرات میں پیش رفت سے ناخوش تھے لیکن اب نریندر مودی کی فسطائی حکومت کے طرز عمل سے ثابت ہورہا ہے کہ بھارت اپنے ہمسایہ ممالک، خاص کر پاکستان کے ساتھ امن نہیں چاہتا بلکہ اپنے جارحانہ عزائم کو بروئے کار لانے کا عمل جاری رکھنا چاہتا ہے۔