اعتراف کافی نہیں، اصلاحِ احوال کیلئے عملی قدم اٹھایئے 

Jan 06, 2023

پاکستان میں معاشی صورتِ حال کس قدر خراب ہو چکی ہے اس کا اندازہ عام آدمی کے طرزِ زندگی، غربت و افلاس اور بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور اشیائے ضروریہ کی گرانی و کمیابی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ گو کہ یہ خرابی پاکستان جیسے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک ہی میں نہیں در آئی بلکہ ترقی یافتہ، خوشحال اور بڑے ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ اس خرابی کی بیشتر وجوہ مقامی سے زیادہ بین الاقوامی ہیں۔ جن میں کووڈ 19 اور روس، یوکرائن جنگ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ دنیا کے کم و بیش تمام ممالک ہی ان کے منفی اثرات کے باعث بُرے حالات کا شکار ہوئے۔ عالمی سطح پر ہونے والی کساد بازاری نے کمزور معیشتوں والے ممالک کو زیادہ متاثر کیا۔ البتہ وہ ممالک جہاں پر پیش آمدہ مشکلات و مسائل کا ادراک کرتے ہوئے بروقت اقدامات کیے گئے وہاں نسبتاً کم حالات خراب ہوئے اور وہ ممالک  رفتہ رفتہ اب بہتری کے سفر پر گامزن ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہ ان چند بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جو اندرونی طور پر مثالی قیادتوں کے بحران کا شکار ہونے کی بنا پر سیاسی عدم استحکام میں مبتلا ہیں اور اس عدم استحکام کے نتیجے کے طور پر معاشی بدحالی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ بدامنی، انتشار، خلفشار ،باہمی چپقلش اور محاذ آرائی نے بد سے بدترین صورتِ حال کو جنم دے رکھا ہے۔ مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑدئیے ہیں جس نے عام آدمی کو زندہ درگورکر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے منتخب وزیر اعظم محمد شہباز شریف کو بھی یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی کہ ’’پاکستان میں مہنگائی عروج پر ہے‘‘۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق بدھ کو صحبت پور میں سیلاب متاثرین اور مقامی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جن حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ انتہائی مخدوش تھے۔ آئی ایم ایف سے ہمارا معاہدہ ٹوٹ چکا تھا۔ دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ گزشتہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہم سستی ترین گیس نہ خرید سکے۔ گندم کی پیداوار طلب سے کم تھی۔آج جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے ۔ اس وقت اربوں ڈالرز کی گندم باہر سے منگوا رہے ہیں تاکہ پاکستان کے عوام کو گندم مل سکے۔ 
یہ د رست ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کے صدر میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں تیرہ چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جب 9 ماہ قبل حکومت قائم ہوئی تو ملک کی معاشی حالت اچھی نہیں تھی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے میں جو شرائط طے کی گئی تھیں ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مالی بحران پیدا ہو چکا تھا۔ مسائل و مشکلات نے عام آدمی کے لیے زندہ رہنے کے اسباب چھین رکھے تھے لیکن جب موجودہ حکومت نے گزشتہ حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے چلتا کیا تھا تو اس نے بھی ملک کی معاشی صوتِ حال، مہنگائی اور عوامی مشکلات کو ہی بنیاد اور محرک بنایا گیا تھا۔ موجودہ وزیر اعظم جو اس وقت قائدِ حزب اختلاف تھے ملک کی معاشی صورتِ حال سے پوری طرح باخبر تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس دعوے  اور اعتمادکے ساتھ عنانِ حکومت سنبھالی تھی کہ ان کی تجربہ کار معاشی ٹیم ملک کو معاشی گرداب سے باہر نکالے گی، عام آدمی کو ریلیف مہیا کیا جائے گا اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا جائے گا لیکن اب 9 ماہ کے بعد ان کا یہ تسلیم کرنا کہ مہنگائی عروج پر ہے اس امر کا اعتراف بھی ہے کہ ان کی حکومت اپنے دعوئوں اور وعدوں کو عملی شکل دینے میں ناکام رہی ہے۔ جس مہنگائی کے خاتمے کے لیے وہ اقتدار میں آئے تھے وہ اب پہلے سے کئی گناہ بڑھ چکی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 5.8 ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر آ چکے ہیں۔ بجلی کا بحران اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ایک طرف غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ جاری ہے اور دوسری طرف توانائی بچت مہم شروع کی جا رہی ہے۔ لندن سے معاشی بحران سے نمٹنے کا تجربہ رکھنے والے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ایک بار پھر وزارتِ خزانہ کا قلمدان دیا گیا کہ وہ ڈالر کو نیچے لائیں گے۔ ڈانواں ڈول معیشت کو سنبھالا دیں گے اور عام آدمی سکون پائے گا لیکن اے بساآرزو کہ خاک شدہ۔ کچھ نہ ہو سکا۔ عوام کے مسائل و مشکلات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔ 
یہ درست ہے کہ تباہ کن سیلاب نے ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے لیکن جو بیرونی امداد اس مد میں پاکستان میں آئی اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے جو قابلِ ذکر رقم سیلاب متاثرین کے لیے مختص کی گئی اس کا اگر شفاف استعمال یقینی بنایا جائے تو بہت حد تک بوجھ میں کمی آ سکتی ہے لیکن حکومت نے اس جانب سنجیدگی سے منصوبہ بندی کی نہ کوئی ٹھوس حکمت عمل وضع کی۔ وہ دولت جو بیرونی بنکوں میں پڑی ہوئی ہے وہ واپس لانے کے جتن کیوں نہیں کیے جاتے۔ برآمدات میں کمی کیوں نہیں کی جاتی۔ کابینہ کا حجم اس قدر بڑا کیوں رکھا گیا ہے۔ جاگیرداروں، بڑے زمینداروں، کاروباری طبقات کو ٹیکس میں رعایت کیوں دی جا رہی ہے۔ اسی طرح رینٹل پاور پلانٹس اور کول پاور پلانٹس کی وجہ سے گردشی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ بھی ملکی معیشت پر بوجھ بن چکا ہے علاوہ ازیں غیر پیداواری اخراجات میں معتدبہ کمی بھی ضروری ہے۔ اس وقت حکومت کو  جن چیلنجز کا سامنا ہے ان سے عہدہ براء ہونا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ اسے اپنی اس آئینی ذمہ داری سے راہ ِ  فرار اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا ذکر کر کے وزیراعظم نے جس بے بسی اور بے چارگی کا اظہار کیا ہے وہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سب سے بڑی خرابی اس نظام کی ہے جو صاحبِ اختیار اور صاحبِ ثروت کی تو سپورٹ کرتا ہے لیکن عام آدمی کو کوئی سپورٹ مہیا نہیں کرتا۔ اس نظام کا خاتمہ ہی ملکی مسائل کا حل ہے جس نے گزشتہ پون صدی سے پورے پاکستانی سماج کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور نتیجے کے طور پر قانون، انصاف اور عدل کی حکمرانی یہاں پر ایک خواب بن چکی۔ امیر، امیر ترین اور غریب غریب ترین ہو چکا ہے۔ اخلاق و اقدار کا جنازہ نکل چکا۔ سیاست بھی ایسے ہی طبقات کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی ہے۔ ان حالات میں ملک کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی سے نجات دلانے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ غنیمت ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اس حقیقت کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور ڈیلیور کرنے کا عزم و حوصلہ بھی ، انہیں چاہیے کہ اب اپنی تمام حکومتی مشینری کو حالات کی بہتری اور اصلاحِ احوال کے لیے وقف کر دیں اور اس ضمن میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی کو اپنایا جائے۔ صرف اسی صورت میں ہی ملک و قوم کو گرداب سے نکالا جا سکتا ہے۔ 

مزیدخبریں