جلد الیکشن نا منظور تاخیر کے بھی مخالف: بلاول

Jan 06, 2023


کراچی (نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پی پی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ اجلاس میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ شہید بھٹو نے 1973ء کا متفقہ آئین دیا۔ 1973ء کا آئین ذوالفقار علی بھٹو کا کارنامہ ہے۔ آئین کی بحالی کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 30 سال جدوجہد کی۔ 1973ء  کا آئین بھٹو  کی دی گئی امانت ہے۔ آج کے اجلاس میں 6 اہم فیصلے کئے گئے۔ پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ آئین کی بحالی کیلئے بہت قربانیاں دی گئیں۔ سی ای سی نے اسٹیبلشمنٹ کے غیر سیاسی ہونے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ سابق آرمی چیف کے ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا بھی خیر مقدم کیا گیا۔ گزشتہ سی ای سی میں سلیکٹڈ کو خدا حافظ کہنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ سلیکٹڈ کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنا تاریخی کامیابی ہے۔ سلیکٹڈ کو گھر بھیجنے میں پی پی نے صف اول کا کردار ادا کیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ غیر جمہوری قوتوں کا جمہوریت سے مقابلہ کریں گے۔ چاہتے ہیں ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ پارلیمان کی بالادستی کیلئے اقدامات کریں گے۔ کچھ لوگ پاکستان میں نفرت کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ نفرت اور تقسیم کی سیاست سے ہے۔ نفرت کی سیاست معاشرے اور جمہوریت کیلئے خطرہ ہے۔ کچھ لوگ ’’مائی وے آر دی ہائی وے‘‘ کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔ سی ای سی نے تمام سیاسی جماعتوں کیلئے کوڈ آف کنڈکٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیا ضابطہ اخلاق بنانے کیلئے پیپلز پارٹی ایک کمیٹی بنائے گی۔ کوڈ آف کنڈکٹ بنانے کیلئے حکومت اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرے گے۔ سیاسی استحکام چاہتے ہیں تو کوڈ آف کنڈکٹ پر کام کرنا ہوگا۔ دہشتگردی کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے۔ دہشت گرد اور انتہا پسند  پاکستان، انسانیت اور اسلام کے دشمن ہیں۔ دہشتگردوں  سے نرم رویے کی خان صاحب کی پالیسی کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ دہشت گردی سے متعلق سیاسی جماعتوں اور پارلیمان کو آن بورڈ لیا جائے۔ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر جیسا سلوک ہونا چاہئے۔ عمران خان دہشت گردوں کا فرنٹ مین ہے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں۔ بلدیاتی ہوں یا عام انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں۔ پی پی الیکشن میں تاخیر قبول نہیں کرے گی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ الیکشن میں تاخیر کرائے گا تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ اگر کسی کو جلد الیکشن کی غلط فہمی ہے تو دور کر لینی چاہئے۔ ہم جلدی الیکشن کی مخالفت کر رہے ہیں تو الیکشن میں تاخیر کی بھی مخالفت کریں گے۔ جو پارلیمان میں ہیں اور جو نہیں ہیں سب جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔ ضابطہ اخلاق بنایا جائے جس کے تحت سیاسی جماعتیں اپنی الیکشن مہم چلائیں۔ انتخابات وقت پر چاہتے ہیں۔ التواء کی بھی حمایت نہیں کریں گے۔ سی ای سی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سب  ملکر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ تو لینا ہی پڑے گا۔ مزید برآں  پیپلزپارٹی نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کو لازمی قرار دتیے ہوئے مذاکرات کی مخالفت کردی۔ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اجلاس میں کہا گیا دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے اقدامات لازمی ہیں۔ شہید محترمہ بھی دہشت گردی سے متاثر ہوئی تھیں، ملک میں ایک بار پھر دہشت گرد سر اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو جوڈیشل قتل لکھا جائے اور گیارہ سال سے جاری اس کیس کا فیصلہ جلد از جلد سنایا جائے۔ فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ سی ای سی میں خیبر پی کے اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور اس کی مذمت کی گئی۔ جبکہ فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردوں یا مسلح لوگوں کے ساتھ کسی صورت بات نہیں کی جائے گی اور نہ ہی پیپلزپارٹی کبھی مذاکرات کی حمایت کرے گی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ کے باہر کسی بات چیت کے حامی نہیں ہے۔ جبکہ پی پی نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیانات کی مذمت بھی کی گئی جس میں وہ اداروں کے خلاف الزام تراشی کررہے ہیں۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے چارٹرآف ڈیموکریسی کی حمایت کی تھی، سیاسی اور معاشی بحران کے خاتمے کے لئے سٹیک ہولڈرز اور سیاسی جماعتوں کے درمیاں بات چیت کی حمایت کرتے ہیں، آئین کے اندر رہتے ہوئے کردار کے حامی ہیں۔ سیاست میں مداخلت کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ آئین کی گولڈن جوبلی منائیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ آج شہید بھٹو کی 96ویں برتھ ڈے ہے، ہم نے شہید بھٹو کو خراج عقیدت پیش کیا، شہید بھٹو نے متفقہ آئین دیا۔ اس پر عملدرآمد اور بحالی کے لئے محترمہ بینظیر بھٹو نے کردار ادا کیا۔ یہ سال 73ء کے آئین کا گولڈن جوبلی سال ہے، جس کے لیے ہم چاروں صوبوں میں اس کے متعلق تقاریب رکھیں گے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ  ہم نئی نسل کو بتائیں گے کہ اس آئین کے لئے ہماری پارٹی نے کتنی جدوجہد کی، صوبوں کو کیسے حقوق دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نفرت کو ہر جگہ پہنچایا جا رہا ہے، ساری جہموری قوتوں کے لئے ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ بنانا ضروری ہے اور پھر اس میں رہتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں اپنی مہم چلائیں۔ اس ملک کو چلانا ہے، ترقی دلانا مقصد ہے تو کوڈ آف کنڈکٹ بنانا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی اس سلسلے میں تمام جماعتوں سے رابطہ کرے گی، ہم سمجھتے ہیں دہشتگرد اور انتہا پاکستان کے دشمن ہیں۔ چیئرمین پی پی نے کہا کہ ہمیں دہشت گردوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا ہوگا جو ایک مجرم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف سے مطالبہ ہے کہ وہ پارلیمان میں قومی سلامتی کا اجلاس بلائیں اور پھر ہم بیٹھ کر ایک لائحہ عمل طے کریں۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے دی جانے والی دھمکی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی دھمکیوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں اور آئین کی مضبوطی کیلئے اپنا کام کرتے رہیں گے، ایسے کسی بھی شخص کو انسان نہیں سمجھتا جس نے ہمارے بچوں کو قتل کیا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم موت سے ڈرنے والے نہیں اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرتے رہے ہیں، ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے میرے ملک، مذہب کو دنیا بھر میں بدنام کیا اور عمران خان نے ان کے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور انہیں این آر او دے کر رہا کروایا اور پھر اے پی ایس کے دہشت گرد کو رہائی دلوائی۔ دریں اثناء پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو  کے عدالتی قتل کی پٹیشن جلد سنے۔ عمران خان کے ملک کے خلاف پراپیگنڈے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اجلاس میں عمران خان کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کی مذمت کی گئی۔ عمران خان جمہوری اداروں کیلئے خطرناک ہیں۔ انہوں نے  پولرائزیشن کو جنم دیا۔ ملک کے اندر کردار ادا کریں گے۔ اداروں کے سیاست میں مداخلت نہ کرنے  کے اعلان کو سراہتے ہیں۔ غیر مسلح ہوئے بغیر کسی سے بات نہیں کی جا سکتی۔بلاول بھٹو زرداری نے اعلیٰ عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا 12 سال سے التواء کا شکار کیس کو فوری سنا جائے۔ افسوس ہم آج تک ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف نہیں دلوا سکے۔ اگر قائد عوام کو انصاف نہیں دے سکتے تو عدالتوں کو بند کر دیں، تالا لگا دیں۔ اگر بھٹو کو انصاف نہیں دے سکتے تو پھر کس کو انصاف دو گے؟۔ عمران خان کہتا تھا کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ دہشت گردوں کو این آر او دیا۔ پارلیمان ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ افغانستان کی جیل سے قیدیوں کو یہاں آنے دینے سے ہمیں دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان نے قومی اداروں کے خلاف اقدامات اٹھائے۔ پیپلزپارٹی سے غیرقانونی‘ غیرآئینی فیصلہ لینے کی امید نہ رکھیں۔ ایک سوال پر کہا کہ آصف زرداری کسی کو پارٹی میں شامل ہونے کا کہتے ہیں تو وہ دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔ عمران خان کہہ رہا ہے ایک بار پھر میرا ہاتھ پکڑو تاکہ پھر ملک کا بیڑا غرق کروں۔ ایم کیو ایم اتحادی ہے لیکن  غیر

جمہوری فیصلے کی امید نہ رکھی جائے۔ پی ایس پی کو کس نے علیحدہ کیا تھا اور کیوں واپس آرہے ہیں؟۔ ہمیں کسی اور کا اشارہ نہیں چاہئے۔ پنجاب میں رئیل اسٹیٹ مافیاز کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پہلے گوگی کی کرپشن بزدار کرتا تھا‘ اب پرویزالٰہی کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ عمران خان کو پتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر حکومت میں نہیں آسکتا۔ عمران خان بچوں کی طرح رو رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ  نے ہاتھ کیوں چھوڑا؟۔ عمر کے اس حصے میں تو عمران خان جمہوری آدمی بنے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی مشورہ ہے کہ مسائل کا سیاسی حل  ڈھونڈنا چاہئے۔ پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ رہنا ہے تو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔ عمران خان  آج بھی اپنی غلطیاں ماننے کو تیار نہیں۔ سیاسی‘ قانونی اور جمہوری لڑائی جاری رہے گی۔ ہم  نے ملک میں جمہوریت کو بحال کیا۔ معاشی بحران سے نکالا۔ عمران خان نے آئی ایم ایف معاہدے کی خلا ف ورزی کی۔ سابق دور میں امیر اور غریب سب کو سبسڈی دی جا رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دیوالیہ ہورہا تھا۔ ابھی تک عمران خان کی تباہی کا سونامی اور بیروزگاری چل رہی ہے۔ سندھ کے 47 فیصد تعلیمی ادارے سیلاب سے متاثر یا تباہ ہوئے ہیں۔ عمران خان نے معاشی بحران پیدا کیا۔ ہماری اتحادی حکومت نے مل کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگر ہم ڈیفالٹ سے نہیں بچا پائے تو مہنگائی‘ بیروزگاری کا بحران مزید بڑا ہوگا۔ خیبر پی کے میں دہشت گردی کی آگ سب کو نظر آ رہی ہے۔ دہشت گرد خیبر پی کے میں بھتہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ عمران خان نے مسائل پیدا کئے۔ ملک کو اس کے حوالے نہیں کر سکتے۔ عمران خان کو چار سال چھوٹ دی گئی۔ موجودہ ٹیم کو بھی ایک سال دیا جائے۔ ایک سوال پر کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں پی پی کو اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبداری کے موقف کی مخالفت کرنا چاہئے؟۔ پی پی اسٹیبلشمنٹ کے غیرجانبدار رہنے کے موقف کو سراہتی اور خوش آئند قرار دیتی ہے۔ 

 پیپلز پارٹی؍ بلاول 

مزیدخبریں