پشاور(بیورورپورٹ)خیبر پختونخوا کی بزنس کمیونٹی نے موجودہ مرکزی اتحادی حکومت کومعاشی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم اور کابینہ اراکین کی جانب سے متضاد اعداد شمار سے متعلق بیانات نے معیشت ٗ کاروبار اور انڈسٹریز کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے ۔ معاشی و اقتصادی صورتحال آئے روز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور اسے اکنامک دہشت گردی بھی قرار دیا ہے۔ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں حکومت سمیت متعلقہ اداروں بالخصوص معاشی ٹیم کو معیشت ٗ کاروبار ٗ صنعتی اور ایکسپورٹ کی ترقی اور اس میں بہتری لانے کیلئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی بصورت دیگر اگر موجودہ پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھا تو ملک بھر میں کاروبار ٗ انڈسٹریز اور تجارت مکمل ختم ہوجائے گی جو ملک و معیشت اور عوام کے لئے کسی صورت بھی سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ گذشتہ روز تاجروں اور صنعت کاروں کے ہمراہ چیمبر ہائوس میں منعقدہ مشترکہ پریس کانفرنس سے سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد اسحاق ٗ سینئر نائب صدر شاہد حسین اور وزیراعلیٰ کے فوکل پرسن برائے ایز آف ڈوئنگ بزنس اینڈ انوسٹمنٹ غضنفر بلور نے خطاب کرتے ہوئے موجودہ اتحادی حکومت کی گذشتہ آٹھ ماہ کی پالیسیوں کے نتیجہ میں معاشی عدم استحکام کا ایک تقابلی جائزہ دیتے ہوئے کاروبار ٗ صنعت اور تجارت دشمن پالیسیوں کی مخالفت کی اور اسے مسترد کیا ۔ پریس کانفرنس کے دوران سرحد چیمبر کے نائب صدر اعجاز خان آفریدی ، سابق صدور حسنین خورشید احمد ، ملک نیاز احمد، فیض محمدفیضی، ریاض ارشد، حاجی محمد افضل ،ذوالفقار علی خان ، انڈسٹریلسٹ ایسوسی ایشن پشار کے صدر ملک عمران اسحاق ، ایگزیکٹو ممبران محمد ارشدصدیقی،حمزہ ابراہیم بٹ ،نعیم قاسمی اور قراۃ العین سمیت تاجروں ، صنعتکاروں، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز بھی موجود تھے۔ سرحد چیمبر کے صدر محمد اسحاق نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال کافی گھمبیر ہے جبکہ حکومت کی جانب سے غلط بیانات صورتحال کو مزید تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ایشو میں نان ایشو لائے جا رہے ہیں حکومتی وزراء اور معاشی ٹیم کی جانب سے مختلف تضاد بیانات دے کر کاروباری طبقہ اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ پورے پاکستان اور خیبر پختونخوا میں اکنامک دہشت گردی کے مترادف ہے ۔ سرحد چیمبر کے صدر محمد اسحاق نے کاروبار اور صنعتوں کو بجلی کی فراہمی کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ظالمانہ اقدامات اٹھا رہے ہیں بجلی بلز میں پہلے کوارٹر ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، فیول پرائٹس ایڈجسٹمنٹ اب فکس چارج کے نام پر کروڑوں روپے وصول کئے جا رہے ہیں جو کہ سراسر زیادتی و ناانصافی ہے ۔انہوں نے کہا کہ صنعتیں 10 سے 15 فیصد کی کیپسٹی پر چل رہی ہیں جبکہ موجودہ صورتحال کے باعث متعدد ایونٹس گذشتہ 4 سے 5 ماہ کے دوران بند ہوچکے ہیں جبکہ بند یونٹس فیکٹریوں سے 31 لاکھ روپے تک فکسڈ ٹیکس کی مد میں گذشتہ ایک ماہ میں بجلی کے بلوں میں وصول کئے گئے ہیں ۔ سرحد چیمبر کے صدر محمد اسحاق نے کہا کہ سرکل ڈیپ کے ساتھ کاروباری طبقہ اور عوام کو منسلک کرنا کسی صورت بھی قبول نہیں ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت بجلی بلوں میں فسکڈ ٹیکس چارجز کو مکمل طور پر ختم کرکے سابقہ MDIs میکسیمم ڈیمانڈ انڈیکیٹر کی پالیسی کو نافذ کرے ۔ سرحد چیمبر کے صدر محمد اسحاق نےs LC کھولنے کے حوالے سے اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ چار ماہ سے LC کھولنے پر پابندی عائد کی گئی ہے جس کی وجہ سے تقریباً ایک لاکھ کے قریب LC بلاک ہیں ایک کمپنی کے 18 سو کنٹینرز بلاک ہیں جس پر 200 ڈالرز فی کنٹینرز ڈیمرجز چارجز وصول کئے جا رہے ہیں جبکہ 100 ڈالرز زرمبادلہ کی شکل میں کمپنیاں بیرون ملک منتقل کر رہی ہیں انہوں نے کہاکہ اس بات کی منسٹری آف کامرس حکومت اور اسٹیٹ بینک جواب دہ ہیں کیونکہ اس وقت 10.8 بلین ڈالرز کا مال پورٹ کراچی پر پھنسا ہوا ہے یہاں تک صورتحال نے سرمایہ کار/ تاجر 1500 سے 1600 ڈالرز تک خام مال سے منگوا سکتا ہے دوسری جانب ڈالرز ناپید ہونے کی وجہ سے تاجروں کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے شاہد آنے والے دنوں میں ملک بھر میں تمام انڈسٹریز مکمل بند ہوجائے گی انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک کی سرکل کاروباری طبقہ کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے ۔ سرحد چیمبر کے صدر نے امن و امان کی مخدوش صورتحال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی سم سے تاجروں کو بھتہ کی کالز اور تھرڈ دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے اور تاجروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ سرحد چیمبر کے سینئر نائب صدر شاہد حسین نے پاک افغان باہمی تجارت کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک افغان باہمی تجارت کا حجم 2.5 بلین ڈالرز سے کم ہوکر 800 ملین ڈالرز تک پہنچ چکا ہے جبکہ سنٹرل ایشیاء کے پانچ ممالک کے ساتھ ساتھ تجارت 75بلین ڈرلز ہے جس میں پاکستان کا حصہ صرف 465 ملین ڈالرز ہے ان کا کہنا تھا کہ سنٹرل ایشیاء کی مارکیٹ میں کافی پوٹینٹل ہے تاہم ابھی تک پاکستان اس سے بھرپور استفادہ حاصل نہیں کر سکا ۔ انہوں نے کہاکہ پاک افغان باہمی تجارت میں کمی کی بنیادی وجہ سے پالیسیوں میں عدم تسلسل ٗ ٹیرف میں اضافہ اور دیگر عوامل کو قرار دیا ہے ۔