جمہوریت اور انتخابات لازم و ملزوم

  سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
 جمہوری ملک میں الیکشن جمہوری نظام کا کلیدی حصہ ہو تے ہیں ۔الیکشن کے بغیر کو ئی بھی جمہوریت مکمل نہیں ہو سکتی ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ جمہوریت صرف اور صرف الیکشن کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مزاج کا نام ہے رویوں کا نام ہے اور ایک ما ئنڈ سیٹ کا نام ہے ۔لیکن بہر حال الیکشن اور صاف شفاف انتخابات جو کہ عوامی رائے کا مظہر ہو ں ،وہ جمہوریت کا بنیادی جزو ہیں ،لیکن لگتا ایسا ہے کہ شاید ہم ابھی تک الیکشن کی اہمیت کو سمجھ نہیں پائے ہیں اور عوامی رائے کی اہمیت ہم پر آشکار نہیں ہے ،بہر حال ملک میں الیکشن کی آمد آمد ہے ،لیکن اس طرح کا انتخابی ما حول نہیں بن سکا ہے جو کہ افسوس کی بات ہے ۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کے نتائج پہلے سے سامنے آچکے ہیں ۔یہ تاثر نہیں بننا چاہیے کہ الیکشن میں کسی بھی جماعت کی حما یت کی جارہی ہے یا پھر کسی بھی جماعت کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے حالات اتنے سازگار نہیں ہیں ۔یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں بھی جتنے بھی الیکشن ہو ئے ہیں ان سب کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا کسی بھی الیکشن کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صاف اور شفاف انتخابات ہوئے ہر الیکشن پر ہی کچھ نہ کچھ الزامات لگتے رہے ہیں ۔لیکن اس بار جس طرح سے کاغذات نامزدگی چھیننے کے حوالے سے رپورٹس سامنے آرہی ہیں ،وہ افسوس ناک ہیں اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ یک طرفہ انتخابات ہو ں اور ان انتخابات کے بعد کسی بھی قسم کی کو ئی بھی اپوزیشن برداشت نہیں کی جارہی ہے ۔کسی بھی ریاست میں عوام ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی رائے کو مقدم جانا جاتا ہے ،اور عوام کی مرضی کے بغیر کو ئی بھی حکومت چل نہیں سکتی ہے اور نہ ہی ان حکومتوں کو وہ قبولیت اور وہ قانونی قبولیت حاصل ہوتی ہے جو کہ ایک عوامی حکومت کو ہونی چاہیے ۔عوام کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔اس لیے یہ بات اہم ہے کہ عوامی طاقت کو عوامی طاقت ہی رہنے دیا جائے اور اس کو کچھ اور نہ بنایا جائے ۔پاکستان کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اس ملک کی جمہوریت ہی کمزور رہی ہے اور اس جمہوریت کو کمزور رکھنے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ خود سیاست دانوں کا بھی کلیدی کردار رہا ہے ،بیڈ گورننس ،اقربا پروری اور عدم شفا فیت جیسے معاملات نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے اور ملک میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جس نے کہ جمہوریت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ،آزادی اظہار رائے جو کہ ایک جمہوری قدر ہے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پھر اس کو جمہوریت کے خلاف ہی استعمال کیا ہے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو کمزور اور انڈر مائن کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ۔میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسے کفر کا نظام قرار دیا جاتا رہا جس سے یقینی طور پر جمہوریت کو نقصان پہنچا لیکن صرف مسئلہ یہی نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے سیاست کے نام پر آمریت مسلط ہوتی ہے عموما ً فرد واحد کے احکامات کی بجاآوری کی جاتی ہے جس سے کہ سیاسی جماعت کو بطور ادارہ نقصان پہنچتا ہے اور ہمارا ماضی گواہ ہے کہ شخصیت پرستی نے اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے ،اور اداروں کے درمیان ٹکرائو کی کیفیت کی وجہ بھی شخصیت پرستی ہی رہی ہے ۔ہمیں اس تصور سے باہر نکل کر ادارہ جاتی نظام کی مضبوطی پر توجہ دینی چاہیے ۔اس سے آگے بڑھنے کا راستہ نکل سکتا ہے ۔یہ سوال بھی اپنی جگہ پر اہمیت کا حامل ہے کہ آیا جمہوریت مخالف آوازوں کو جمہوریت کے خلاف بولنے کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں دینی چاہیے ؟کیونکہ بہر حال کسی کی آواز کو دبانا بھی جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کے زمرے میں ہی آتا ہے ۔موجودہ دنیا کافی پیچیدہ ہو چکی ہے اور امریکہ جیسے ملک اور امریکہ جیسی جمہوریت میں بھی آج یہ بحث ہورہی ہے کہ آیا سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 6جنوری کو امریکی جمہوریت کی علامت کیپیٹل ہل پر حملے کی پا داش میںکیا سزا دی جائے ؟ اور کیا ان کو اگلے صدارتی انتخاب میں الیکشن لڑنے کی اجازت ہو نی چاہیے یا نہیں ؟ امریکہ کی کچھ ریاستوں میں ان کا نام امید واروں کی فہرست سے خارج بھی کر دیا گیا ہے اور اب اس حوالے سے ٹرمپ جلد ہی قانونی چارہ جوئی کرنے جا رہے ہیں ۔امریکی ماہرین کے مطابق یہ کیس امریکی جمہوریت کے لیے بھی ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ ایک جانب قانون ہے اور دوسری جانب عوام ہیں ،یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا کہ عوام کی حمایت یا عوامی مقبولیت کیا کسی امید وار کو قانون سے بالا کر سکتی ہے یا نہیں اور میرے خیال میں پاکستان کی جمہوریت اور پاکستان کی صورتحال کے تناظر میں بھی یہ کیس اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان میں بھی بظاہر ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہمیں نہ صرف آج ہے بلکہ پہلے بھی رہتا ہے اور اس سوال کا جواب ہم بھی آج تک تلاش ہی کررہے ہیں کہ آیا قانون یا پھر عوامی مینڈیٹ دونوں میں سے زیادہ محترم کون ہے ؟پاکستان کے ساتھ ایک خصوصی چیز رہی ہے جو کہ دیگر مغربی ممالک کو درپیش نہیں رہی کہ یہاں پر عدالتی سمیت دیگر راستوں سے وزرائے اعظم اور حکومتیں نکالی جاتی رہی ہیں جو کہ میری رائے میں مناسب عمل نہیں ہے ،جب تک کہ کسی پر سنگین ترین الزام نہ ہو اور وہ ثابت نہ ہو جائے تب تک کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو تو کسی صورت بھی چھیڑنا نہیں چاہیے ۔بہر حال جیسا کہ پہلے کہا کہ ملک میں الیکشن کی آمد آمد ہے اور انتخابات کا ماحول اگرچہ ماضی جیسا نہیں لیکن آہستہ آہستہ کرکے بن رہا ہے ،ہمیں یہ توقع کرنی چاہیے کہ عوامی رائے کو اہمیت دی جائے گی عوام کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا اور عوام کی طاقت کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں ہو گی ۔آزاد ،شفاف انتخابات ہی اس ملک کا مستقبل ہیں انتخابات کے بعد ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن