پورا پاکستان 5سال ناہلی قانون سے خوش، کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا: چیف جسٹس، فیصلہ محفوظ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق مقدمہ میں دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ چیف جسٹ نے کہا ہے کہ  جلد مختصر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے۔ صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہل؟۔ پبلک نوٹس کے باوجود کیس میں کوئی سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، عوام کا کسی کو خیال نہیں۔ پورا پاکستان 5 سال نا اہلی قانون سے خوش ہے کسی نے قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔ الیکشن سے متعلق تمام کیسز آئندہ ہفتے ریگولر بینچ میں مقرر ہوں گے، اس کیس میں انفرادی لوگوں کے مقدمات نہیں سنیں گے، انفرادی لوگوں کے الیکشن معاملات آئندہ ہفتے سنیں گے، ہوسکتا ہے تب تک ہمارا اس کیس میں آرڈر بھی آ چکا ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ جی، ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاعمر ختم نہیں ہوتا، کامن لا سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو جب ادا ہو جائے تو وہ اہل ہوجاتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سول کورٹ نااہلی کا ڈیکلیریشن دے سکتا ہے؟۔ جس پر وکیل نے بتایا کہ سول کورٹ ایسا ڈیکلیریشن نہیں دے سکتا، کون سا سول کورٹ ہے جو کسی کو واجبات باقی ہونے پر کہہ دے یہ صادق و امین نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سے ڈیکلیریشن پر نااہلی کی مدت متعین کی جا سکتی ہے؟۔ جسٹس  محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 62 کا اطلاق الیکشن سے پہلے ہی ہوتا ہے یا بعد بھی ہو سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جزو تک محدود کیوں کر رہے ہیں، ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظرانداز کیوں کر رہے ہیں، آئین سے جنرل ایوب سے لے کر سب نے تجاوز کیا گیا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مخصوص نئی جزئیات داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟۔  صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائے تو تاحیات نااہل؟۔ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟۔ چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے کہا کہ خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کہا گیا کہ سادہ قانون سازی سے آئین میں دی چیز نہیں بدلی جا سکتی، ہم مگر آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا پاکستانی ارکان پارلیمنٹ دنیا میں سب سے بہترین ہیں؟، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو پھر ہم نے اپنے ارکان کی اہلیت کا جو پیمانہ رکھا دنیا میں کہیں اور ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کو دیکھ رہا ہوں۔ الفاظ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن میرا یہ اختیار نہیں ہے کہ آئین کے ہر لفظ کو نظر انداز کروں۔ آئین کا ہر لفظ اہم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے کے ذریعے تشریح کی۔ آئین نے نہیں لکھا نااہلی کا معیار کیا ہوگا۔ یہ تو عدالتی فیصلے کے ذریعے طے کیا گیا مدت کیا ہوگی۔ ایک شخص قتل کرتا ہے، لواحقین کو دیت دیتا ہے تو کاغذات نامزدگی جمع کرا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کاغذات نامزدگی میں پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنا سونا ہے، اگر سونا رکھنے پر درست نہ بتایا جائے تو تاحیات نااہل کر دیتے ہیں، تاحیات نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہئے۔ جسٹس جمال خان نے وکیل سے استفسار کیا کہ فرا ڈ پر ایک شخص کو سزا ہو جائے تو کیا سزا کے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ دھوکا دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کون صادق اور امین ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کیا ایک شخص کی غلطی سے پورا حلقہ متاثر کیا جا سکتا ہے، مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں، کیسے ممکن ہے ایک شخص پر مقدمہ بنا ہو اور پورا حلقہ اس کے نتائج بھگتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس پر لارجر بینچ بنایا گیا تھا تاکہ سوالات کا جواب مل سکے، معاملہ الجھتا جا رہا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل مخدوم علی سے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ ڈکلیریشن جاری کرسکتی ہے۔ جس پر وکیل مخدوم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ ڈکلیریشن جاری کرسکتی ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون سازوں نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکیآرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت پانچ سال کردی، کیا بہترنہ ہوتا کہ قانون میں واضح لکھا جاتا کہ 62 ون ایف کے ذریعے 5 سال نااہلی کی سزا ہوگی؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت قانون آپکے سامنے چیلنج نہیں ہوا آپ اپیل سن رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مدت پانچ سال طے کرنے کا معاملہ عدالت آیا، کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی توسزا پانچ سال ہو۔وکیل نے کہا کہ سیکشن 232 تین کو اگلی پارلیمنٹ ختم کرسکتی ہے، عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں، اگر سمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قراردیا گیا تو الیکشن قانون کا اطلاق ہوگا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ہم سیکشن 232 کو کیسے کالعدم قرار دیں وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا۔ جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگرعدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کردے تو کیا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈکلیریشن کاعدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے، جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہوچکے انہیں دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ڈکلیریشن حتمی ہوچکا ہے تو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ساتھی جج سے سوال کیا کہ فیصل واوڈا کیس میں آپکا کیا خیال ہے۔ جس پر جسٹس منصور نے جواب دیا کہ اس کیس میں ڈکلیریشن نہیں تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت طے کر دی تو یہ سوال تو اکیڈمک سوال ہوا کہ نااہلی کی مدت کیا ہوگی۔جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہوگی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کہہ چکی ہے نااہلی 5 سال ہوگی، کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کونوٹس کیا گیا تھا؟ریکارڈ منگوا لیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے سیکشن 232 نے عدالتی معاون کے مطابق سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو بے اثرکردیا۔وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، سیکشن 232 چیلنج ہی نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ میں توبہ کے نظریہ کی بات ہوئی، عدالت کو سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کے فیصلے کو ختم کرنا ہوگا۔چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لے؟۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس ہونے سے پہلے مدت کم نہیں ہوسکتی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے ذریعے ڈکلیریشن کی مدت 5 سال کی گئی۔ وکیل نے جواب دیا کہ نااہلی کی مدت مناسب وقت کیلئے ہونی چاہئے، تاحیات نہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی سے کہا کہ آپ آج ہی اپنی تحریری معروضات بھی جمع کرادیں، پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے5 سال نااہلی کا قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔جہانگیر خان ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کریں، انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا، سپریم کورٹ الیکشن ایکٹ پر فیصلہ نہ دے، وہ چیلنج نہیں ہواجسٹس جمال مندو خیل نے وکیل مخدوم علی سے استفسار کیا کہ کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں ڈکلیریشن دی گئی یا صرف پرنسپل طے ہوا۔ جس پر وکیل مخدوم علی نے جواب دیا کہ نواز شریف کیس میں بیٹے سے تخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل کیا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے وکیل کو نواز شریف کا نام لینے سے روک دیا اور مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم علی خان صاحب اس عدالت میں کسی کا نام مت لیں، میں نہیں چاہتا یہاں سیاسی لوگوں کے نام لئے جائیں یا معاملے کو سیاسی رنگ دیا جائے، جو شخص خود عدالت نہیں آیا اس کی وکالت بھی نہ کریں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پربحث ہوئی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں سمیع اللہ کیس میں خاکوانی کیس پربحث نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑی عجیب بات ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفار کیا کہ اصل میں خاکوانی کیس کس معاملے پر تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ خاکوانی کیس نا اہلی سے متعلق تھا، جسٹس جواد نے خاکوانی کیس میں کہا نااہلی کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، لیکن کیس میں پھر یہ معاملہ بعد نہیں دیکھا گیا۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اخلاقی بدنیتی کے بارے میں قانون مزید کیا کہتا ہے۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں سمیع اللہ کیس کا فیصلہ درست نہیں۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بالکل میں سمجھتا ہوں سمیع اللہ کا فیصلہ درست نہیں ہوا، صابر شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آرٹیکل 62 الیکشن سے پہلے اور 63 بعد میں لاگو ہو گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی، ای، ایف، ایچ کلاز شامل کرنے سے آرٹیکل 62 الجھ گیا، خاکوانی کیس7 رکنی اور سمیع اللہ کیس کا فیصلہ 5 رکنی بینچ نے کیا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ خاکوانی کیس سے متعلق بات کریں، خاکوانی کیس کے 7 رکنی بینچ کا فیصلہ کیسے پس پشت ڈالا گیا، 7رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے تو ہم 5 رکنی بینچ کے فیصلے پر انحصار کیوں کریں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تجاویز پر مبنی نوٹ لکھا تھا۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں ڈکلیریشن کا تعین کئے بغیر فیصلہ دیا گیا، اس کا مطلب ہے سمیع اللہ کیس میں بنیادی قانون دیکھے بغیر فیصلہ دیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 73 کے آئین میں 2 ترامیم شامل کرنے کی کوشش کو پارلیمنٹ نے مسترد کیا، رکن کے کردار،ایمان سے متعلق دونوں ترامیم مذہبی جماعتوں کو دی تھیں، 1985میں وہ دونوں ترامیم واپس آئین میں ڈالی گئیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمجھنے میں مشکل ہورہی ہے کہ خاکوانی کیس کا ذکر کسی وکیل نے بھی نہیں کیا، ہم سمیع اللہ بلوچ کیس میں پھنسے ہوئے ہیں خاکوانی کیس کوکیوں نہ دیکھیں، پارلیمنٹ نے 5 سال کا ایک فیصلہ کر لیا ہمیں اسے قبول کرنے میں مسئلہ کیا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے سوالات کے جوابات کیوں نہیں دیئے گئے، بتائیں کسی کے ایماندار ہونے کا فیصلہ کون کر سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جب تک ڈکلیریشن کا معاملہ حل نہیں ہوتا ہم اس سے آگے نہیں جاسکتے، جب تک ڈکلیریشن کا معاملہ حل نہ ہو تو فیصلے کیسے دیئے گئے۔چیف جسٹس نے سمیع اللہ بلوچ میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ماضی کے فیصلے کو نظرانداز کر کے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کر دیا۔شعیب شاہین نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پیش ہو رہا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خوش آمدید،کب سے انتظار کر رہے تھے کہ کوئی سیاسی جماعت آئے۔شعیب شاہین نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم فرد واحد کے لیے کی گئی، پارلیمنٹ نے فرد واحد کے لیے ترمیم کر کے سپریم کورٹ کی 62 ون ایف کی تشریح غیر موثر کر دی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو الیکشن ایکٹ نہیں اپنا فیصلہ دیکھ رہے ہیں، الیکشن ایکٹ کو چیلنج کریں تو اسے بھی دیکھ لیں گے۔وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق آئینی ترمیم لازمی ہوگی، الیکشن ترمیمی ایکٹ میں خامیاں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ سے مسئلہ ہے تو اسے چیلنج کریں، چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کیا کہ تحریک انصاف نے ہمارے سامنے کوئی درخواست دائر نہیں کی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین سے مکالمہ کیا کہ بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے، جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ ہم تو آج کل دیر ہی کر رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن