وفاقی محتسب کو کام کرنے دیں

اطلاعات کے مطابق حکومت وفاقی محتسب کے ایک حکم پر عملدرآمد نہیں کر رہی ہے جس کی رُو سے ایک شہری کو معلومات فراہم کرنا تھیں۔ مرکز برائے امن و ترقی کے مسٹر زاہد عبداللہ نے وزراتِ قانون کو درخواست دی تھی کہ انہیں اُن منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے جو کہ حکومت نے شہریوں کے ٹیکسوں سے وصول شدہ رقوم میں سے جنرل مشرف کے دور میں اُن وکلا‘ بشمول مسٹر شریف الدین پیرزادہ اور جسٹس ملک قیوم کو ادا کی تھیں۔ حکومت ان فیسوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکاری ہے بلکہ یہاں تک کہ وزارتِ قانون نے صدرِ مملکت سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لئے اُن کے آگے درخواست دی ہے تاکہ جنرل مشرف کے کارنامے طشت ازبام نہ ہو پائیں۔ انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ’’ایسا کرنے سے غیر ضروری مشکلات اور الجھنیں پیدا ہوں گی۔‘‘ درخواست گزار نے سب سے پہلے آزادیٔ اطلاعات کے آرڈیننس مجریہ 2002ء کے تحت وزارتِ قانون سے رجوع کیا تھا لیکن ناکامی پر وفاقی محتسب کو درخواست دی تھی‘ جب محتسب نے اس کے حق میں فیصلہ دیا تو وزارت نے ’’انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے‘‘ صدر کو درخواست دی۔ بھلا یہ کیسا انصاف ہے کہ جب محتسب کسی وزارت کو باقاعدہ ایک قانون کے تحت عمل کرنے کی ہدایت کرے تو وزارت صدر سے رجوع کر لے۔ وزارت نے درخواست میں تحریر کیا کہ یہ ریکارڈ خفیہ اور رازدارانہ ہے۔ بھلا کوئی پوچھے اس میں ایسی کونسی شے ہے جس کا اگر دشمن کو پتہ چل گیا تو قومی سلامتی کو خطرات پیدا ہو جائیں گے؟ بظاہر تو اگر اس مسئلہ میں بے قاعدگیاں عوام کے علم میں آئیں تو آئندہ کسی اہلکار کیلئے سرکاری فنڈز کا ضیاع مشکل ہو جائے گا جو ایک اچھی بات ہو گی۔
اب گیند حکومت کی ’کورٹ‘ میں ہے۔ اگر صدر اس واضح قانون کی موجودگی میں اس چھوٹے سے مسئلے میں دخل اندازی کرنا چاہیں‘ تو وہ کر سکتے ہیں‘ لیکن اُس صورت میں انہیں وفاقی محتسب کا عہدہ ختم کر دینا چاہئے۔ یہ عہدہ اس لئے بنایا گیا تھا کہ عوام کو افسر شاہی کی من مانیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ قانون کے مطابق ہونے کے باوجود افسر شاہی کی نازک طبیعت پر بارِ گراں گزرے جس پر صدرِ مملکت مداخلت کریں گے تو اس سے وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس کے علاوہ اس سے یہ تاثر قائم ہو گا کہ صدر نوکری شاہی کی من مانیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں جنہوں نے ان خطیر رقوم کا ضیاع کیا۔ ہم نے قانون کی حکمرانی بحال کرانے کے لئے ایک ڈکٹیٹر کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے۔ اس لئے حکومت کو وفاقی محتسب کی کسی قانونی کارروائی میں دخل در معقولات کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
وفاقی محتسب کا عہدہ عوام کو حکومتی کارندوں کی زیادتیوں سے تحفظ دینے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ صدرِ مملکت حکومت کے سربراہ ہیں انہیں چاہیے کہ وزیرِ قانون سے کہیں ’’جناب! آپ کو وہ کام کرنا ہو گا جس کی محتسب آپ کو قانون کے مطابق ہدایت دے رہے ہیں اگر آپ نے غیر معمولی طور پر زائد فیسیں ادا نہیں کی ہیں‘ تو آپ کو ڈر کس چیز کا ہے؟ اور اگر فضول خرچی کی ہے تو اس کا جواب اور حساب دیجئے۔‘‘
وطنِ عزیز صرف اس صورت میں موجود ہ انتشار سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے اگر عدالتوں اور محتسبین کے فیصلوں پر بلا چُون و چرا عمل کیا جائے گا ورنہ یہاں موجود فتنہ‘ فساد اور طوائف الملوکی جاری و ساری رہے گی جو اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ ہر سطح پر تنگ نظر بونے ہمارے حاکم رہے ہیں۔ انہوں نے وطن عزیز کو ایسی بُری طرح چلایا ہے کہ کسی کی جان‘ مال‘ عزت سلامت نہ رہے اور دونوں ہاتھوں سے اس بیدردی سے لوٹا ہے کہ ہر سال آٹھ ہزار کروڑ (ایک بلین ڈالر) وصول کرنے کے باوجود بھی دیوالیہ ہونے جا رہے ہیں۔ حکومت کو یہ معلومات دینا ہوں گی‘ ورنہ عوام کو چاہیے کہ حکومت کو ایسا کرنے پر مجبور کریں۔ حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ سول سوسائٹی اور ادارے زندہ ہیں انہیں چاہیے کہ ان معاملات کا انکشاف کروا کر ہی دم لیں۔

ای پیپر دی نیشن