جون کی 29تاریخ تھی میں حسبِ معمول دس بجے گھر سے دفتر کیلئے روانہ ہوا تو میری نظر اچانک گاڑی کے میٹر پر پڑی تو پتہ چلا کہ پٹرول تو نہ ہونے کے برابر رہ گیاہے چنانچہ میں دفتر کی بجائے قریبی پٹرول پمپ پر چلا گیا لیکن پٹرول پمپ والوں نے یہ کہہ کر پٹرول دینے سے انکار کردیا کہ پٹرول تو پیچھے سے آہی نہیں رہا میں ایک دوسرے پٹرول پمپ پر چلا گیا تو وہاں پر بورڈ لگا تھا کہ پٹرول دستیاب نہیں،میں تیسرے پٹرول پمپ پر گیا تو پٹرول پمپ کے سٹاف نے کہا کہ پٹرول تو ابھی ختم ہوا ہے،میں نے پٹرول پمپ کے ایک ملازم کو اعتماد میں لیکر پوچھا کہ کیا بات ہے کہ میں تین پٹرول پمپوں پر گیا ہوں مگر کہیں سے بھی پٹرول نہیں ملا اس نے کہا کہ یکم جولائی سے پہلے آپ کو کسی پٹرول پمپ سے پٹرول نہیں ملے گا کیونکہ پٹرول کی قیمت میں اڑھائی روپے اضافہ ہورہا ہے اور نئی قیمت کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا اس لئے پٹرول پمپ مالکان نے پٹرول کی فروخت روک دی ہے میں نے اس سے درخواست کی کہ آج تو سی این جی کی بھی چھٹی ہے اسلئے تھوڑا سا پٹرول دے دو تاکہ میرا آج کا دن نکل جائے۔اس نے کہا کہ یہ دو دن تو آپ کو پٹرول کسی پٹرول پمپ سے نہیں ملے گا اگر آپ کو بہت مجبوری ہے تو یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک آدمی نے سڑک پر پٹرول کی بوتلیں رکھی ہیں آپ اس سے کچھ پٹرول لیکر کام چلا لیں۔ چنانچہ میں سڑک کنارے بیٹھے اس شخص کے پاس چلا گیا جو کولڈ ڈِرنک کی خالی بوتلوں میں پٹرول بیچ رہا تھا میں پٹرول ڈلوا کر دفتر کیلئے روانہ ہوا تو ذہن میں مختلف خیالات آنے لگے میں سوچنے لگا کہ اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔جب پٹرول مہنگا ہونے کا امکان ہوتا ہے تو پٹرول پمپس والے دو دن پہلے ہی پٹرول بند کردیتے ہیں تاکہ پرانی قیمت پر جو پٹرول انہوں نے سٹور کر رکھا ہے وہ نئی قیمت پر فروخت کرکے زیادہ منافع کمائیںاور جب کبھی کبھار حکومت پٹرول کی قیمتوں میں کمی کرتی ہے تو تب بھی پٹرول پمپس والے پٹرول کی فروخت اس وقت تک بند کردیتے ہیں جب تک اس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کروالیتے ،میںیہی سوچتے سوچتے آفس پہنچ گیا جب اپنے کمرے میں داخل ہوا تو ٹیلی ویژن پر خبر چل رہی تھی کہ ڈاکوﺅں نے گارڈن ٹاﺅن لاہور کی ایک سڑک پر سابق ایڈووکیٹ جنرل اشتراوصاف کی گاڑی پر فائرنگ کردی ہے ، ڈاکو سڑک پر دن دیہاڑے ایک خاتون کو لوٹ رہے تھے کہ اشتر اوصاف کے گارڈوں نے انہیں روکا تو انہوں نے فائرنگ کردی۔ ٹی وی پر اشتراوصاف کی خبر سن رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی میں نے فون کا ریسیور اٹھا کر کانوں سے لگایا تو کوئی شخص لیسکو حکام کو ناقابل بیان گالیاں دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ہم لوگ بھاری بل بھی ادا کرتے ہیں اور ہمیں طویل لوڈشیڈنگ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ پاکستان میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ بل بھی ادا نہیں کرتے اور انہیںزیادہ لوڈشیڈنگ کا بھی سامنا نہیں،میں نے پوچھا کہ بل تو سب کو دینا پڑتے ہیں اس کالر نے کہا کہ بل صرف لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ ،گجرات،فیصل آباد اور چند دیگر بڑے شہروں کے مکین دیتے ہیں آپ پنجاب میں راجن پور،صادق آباد،رحیم یار خان کے علاوہ سرحد ، بلوچستان اور سندھ کے اکثر علاقوں کے مکین بجلی چوری کرتے ہیں،بعض علاقوں میں تومیٹر کا تصور ہی نہیں لوگوں نے مین لائنوں کے ساتھ ڈائریکٹ کنڈیاں لگا رکھی ہیں،میں نے اس کالر کو تسلی دیکر ٹیلی فون بند کردیا اس کے بعد میں ڈیوٹی کے سلسلے میں پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں گیا تو وہاں سینکڑوں اراکین اسمبلی پنجاب کے عوام کی قسمت کے فیصلے کررہے تھے۔ میرے ذہن میں پٹرول کے حصول کیلئے ذلت و رسوائی،اشتراوصاف کی گاڑی پر ڈاکوﺅں کا حملہ اور لیسکو حکام کو ایک کالر کی طرف سے گالیاں اور بجلی چوری کی کہانی جیسے واقعات کی تصویر گھوم رہی تھی ان حالات میں مجھے اراکین پنجاب اسمبلی کی تقریر یں بہت پھیکی لگ رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ سینکڑوں اراکین اسمبلی حکومتی خرچ پر یہاں کیا کر رہے ہیں جبکہ ان کی لاہور میں موجودگی میں دن دیہاڑے ڈاکے ڈالے جارہے ہیں۔ زیادہ منافع کے لالچ میں پٹرول کی فروخت بند کردی گئی ہے اور شہری مارے مارے پھر رہے ہیں لوگ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر حکام کو گالیاں دے رہے ہیں،ان حالات میں حکومتی رٹ کہاں ہے اور یہ سینکڑوں اراکین اسمبلی اور وزراءدیگر حکمران کیا کر رہے ہیں۔ ڈاکے، لوڈشیڈنگ اور بجلی چوری روکنے کیلئے تو طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاہم اگر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے یا کمی کی سمری اوپن نہ کی جائے تو لوگ پٹرول کی قلت کے عذاب سے بچ سکتے ہیں۔
حکومتی رٹ کہاں ہے!
Jul 06, 2013