اسلام بمقابل اسلام

انتخابات کے پہلے ہی مرحلے میں ان دونوں جماعتوں کا صفایا ہوگیا۔ عبدالقادر حقانی کی قیادت میں اسلام نافذ کرنے کا ایجنڈا رکھنے والے جماعت اسلامی سالویشن فرنٹ نے 231نشستوں میں سے 188 نشستیں حاصل کرلیں۔ ایف ایل این کو پندرہ اور ایس ایف ایف کو 25نشستیں ملیں۔ دوسرے مرحلے میں 199نشستوں کا انتخاب ہونا تھا۔ ایوان میں واضح برتری حاصل کرنے کیلئے اسلامی سالویشن فرنٹ کو مزید صرف 28نشستوں کی ضرورت تھی۔ان نتائج نے مغرب کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کردیا۔ الجزائری فوج کو اشارہ دے دیا گیا کہ وہ انتخابی عمل کے مکمل ہونے سے پہلے ہی حرکت میں آجائے۔
یہاں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ جتنا اتنخابی عمل مکمل ہو پایا اس میں ’’ اسلام ‘‘ کو 3260222 ووٹ ملے۔ جنگ آزادی جیتنے والی ایف ایل این کو 1612947اور سوشلسٹ فورسز فرنٹ کو 510661ووٹ مل سکے جس کا مطلب یہ تھا کہ عوام بڑی بھاری اکثریت میں اسلام کا نفاذ چاہتے تھے۔جمہوریت کی سربلندی کیلئے دوسرا بڑا تجربہ مغرب نے فلسطین میں کرا کے دیکھا۔ وہاں بھی اسلام پسند جماعت حماص نے یاسر عرفات کی جماعت کو ایک تاریخی شکست سے دوچار کیا۔جمہوریت کو سربلند کرنے کی مہم میں مغرب نے تیسرا تجربہ حال ہی میں مصر کے اندر کیا۔ مغرب کے تمام تجزیہ کاروں کے اندازوں کے برعکس اخوان المسلمین نے یہاں بھی فیصلہ کن کامیابی حاصل کی۔ دوسرے نمبر پر آنیوالی جماعت کا منشور بھی اسلامی ہی تھا۔اب یہ بات مغرب پر پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی سیکولرزم اور اسلام کے درمیان انتخاب کرنے کیلئے کہا جائیگا وہ اپنا فیصلہ اسلام کے حق میں ہی دینگے۔چنانچہ اب مغرب نے اسلام کو روکنے کیلئے جمہوریت کا آپشن استعمال کرنا بند کردیا ہے ۔ اب مغرب کی رائے میں اسلام کو اسلام کیخلاف صف آراء کرکے ہی اسلام کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔لیبیا ٗ شام اور عراق میں جو کچھ ہورہا ہے وہ مغرب کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
اس حکمت عملی کو اختیار کرنے کی طرف مغرب نے پہلا قدم ’’ دہشت گردی کیخلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز کرکے اٹھایا جس کی لپیٹ میں آج کی تقریباً آدھی مسلم دنیا آچکی ہے۔ پاکستان بدقسمتی سے اس خوفناک جنگ کو بائی پاس نہیں کرسکا ۔ پاکستان کو اس جنگ کا ایک اہم حصہ بنایا جاچکا ہے اس صورتحال کے اسباب میں جانا میرا مقصد نہیں۔ میں صرف اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اگرچہ یہ جنگ ہم نے اپنی سلامتی اور بقاء کیلئے ہی لڑنی اور جیتنی ہے ٗ ہمیں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی ہوگی کہ یہ جنگ ہم پر ہمارے تاریخی دشمنوں نے ایک خوفناک منصوبے کے تحت تھوپی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس جنگ میں فتح مند ہونے کیلئے ہمیں ایک طرف دہشت گردی کا ہتھیار اپنے دشمنوں کے ہاتھوں سے چھینا ہوگا اور دوسری طرف اُن مذموم مقاصد کو بھی ناکام بنا نا ہوگا جن کی تکمیل کیلئے ہمارے دشمنوں نے یہ سارا سکرپٹ لکھا ہے۔ہمارے دشمنوں کا خیال ہے کہ ’’ اسلام بمقابل اسلام ‘‘ کے منظرنامے کے ذریعے اسلام کے سیاسی احیا کا راستہ روکا جاسکے گا۔ مگراہل پاکستان مغرب کے اس خواب کو خاک میں ملادیں گے۔
مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون بہنے کا سب سے زیادہ المناک منظر نامہ شام اورعراق پیش کررہا ہے۔ آج کی دنیا کا نقشہ آپکے سامنے ہے۔ شام اور عراق میں ہونیوالی خونریزی رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔ اب اِس خانہ جنگی نے اسلام کے دو بڑے فرقوں کے درمیان تصادم کی صورت اختیار کرلی ہے۔ صرف شیعہ اور سنی ایک دوسرے کیخلاف برسرپیکار نہیں بہت سارے سنی دھڑے بھی باہمی جنگ و جدل میں مصروف نظرآتے ہیں۔یقینی طور پر یہ صورتحال اسلام کے مستقبل کیلئے بے حد تشویش ناک ہے۔ مگر اِس خوفناک منظر نامے کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ مغرب نے ’’ اسلام‘‘ کے ہاتھ میں بندوق پکڑوا کر اپنے ہی مستقبل کیخلاف ایک خطرناک قدم اٹھایا ہے۔ ایک مرتبہ کسی مقصد کیلئے جان دینے کی عادت پڑ جائے تو پھر بات بہت دور تک جایا کرتی ہے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن