جس طرح حسن کو سمجھنے کیلئے عمر بھر کی ریاضت اور عشق کی پہچان کیلئے موت بے معنی ٹھہرتی ہے اُسی طرح موسموں کی ادائیں جاننے کیلئے دِنوں کے ہیر پھیر بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ گرما، سرما، بہار، خزاں یہ سب عارضی اور علامتی موسمی استعارے ہیں جو اپنی مرضی سے آتے ہیں اور اپنی ہی مرضی سے چلے جاتے ہیں۔ ایسے موسموں سے تو وہ زخم بہتر ہوتے ہیں جو ایک بار سینے سے آ لگیں تو پھر زندگی بھر سینے سے ہی لگے رہتے ہیں۔یہ بھی تو ایک موسم ہی ہوتا ہے کہ جب ہجر کی رات کے ضبط کو کسی کے قدموں کی چاپ توڑ ڈالتی ہے۔ من کی کھڑکیاں، دِل کے کواڑ اور بند ِقبا نہ چاہتے ہوئے بھی کھل جاتے ہیں۔حقیقت حال یہ ہے کہ موسم ہجر کاہو یا وصال کا، غم کا موسم ہو یا خوشی کا، بہار کا ہو یا خزاں کا، موسم ِ گریہ ہو یا شادمانی کا ہر شخص پر اُس کے مزاج کیمطابق موسم کا اثر ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنے ظرف کیمطابق موسم کا اثر قبول کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دُکھ کا احساس سب کیلئے ایک جیسا ہوتا ہے مگرحوصلے جدا جدا، کوئی بکھر جاتا ہے تو کوئی مسکرا دیتا ہے ۔کچھ لوگ موسموں کی تاثیر لے کر دوسروں کو برگ برگ نمو بخشتے ہیں تو کچھ لوگ شاخ شاخ جڑیں کاٹتے رہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ لغزشوں کے موسم میں احتیاط برتنے والے شجر بے ثمر ہی رہتے ہیں۔جب رت جگوں کے خواب تعبیروں کو ڈس لیں تو پھر خیال کی سولی پر لٹکے ہوئے لفظوںکی تڑپ کو ضبط تحریر میں لانا محال ہو جاتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر پھول کو رنگ، رنگ کوخوشبو، خوشبوکوہوا اورہوا کو بوستان کا قیدی نہ بنایا جائے تو گلستان کے موسم کا حسن ماند پڑ جاتا ہے۔ من کے موسموں کی تقلید کرنیوالوںکے نزدیک دسمبر کی راتوں کے اصل مستحق جُون کے دِن ہوتے ہیں۔ شداد کی پُراسرار اِرمِ ارضی اِسی وجہ سے ناکام ہوئی تھی کہ وہ من مرضی کے موسموں سے محروم رہی تھی۔ موسم رنگینی کیلئے انگڑائی لیتے ہیں۔ خزائیں بہاروں کیلئے تڑپتی ہیں‘صحرا برسات کیلئے سسکتا ہے اور حیا آنچل کو منہ مانگی قیمت دے دیتی ہے۔ بات بات پر موسموں کا تذکرہ کرنیوالے لوگ کہتے ہیں کہ موسم تو وہ ہے جو دِل کو بھی بدل دے۔ ایسے لوگوں کی دانست میں محض برسات کا نام موسم ہے حالانکہ وہ خود کسی پر برسنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ موسم کی عجیب و غریب تعریفیں کرنیوالے لوگوں کو کون سمجھائے کہ سورج کے گرد زمین کی گردش اُس موسم کیلئے بے تاب دِکھائی دیتی ہے جو موسم کروڑ ہا صدیوں کی مسافت کے باوجود آج تک اُس پر آیاہی نہیں ۔ اگر زمین اِن عارضی موسموں سے لطف اندوز ہو جاتی تو کب سے وہ گردش زمانہ سے منہ موڑ چکی ہوتی۔ زمین کی گردش اس امر کا ابلاغ کرتی ہے کہ منزل پر پہنچنے سے پہلے ملنے والے تمام موسم نہ صرف عارضی ہوتے ہیں بلکہ بے اعتبار بھی۔ کیونکہ اعتبار کا موسم تو ہمیشہ کیلئے آتا ہے اور جب آ جاتا ہے تو پھر واپس نہیں جاتا۔اعتبار کے موسم کاانتظار بھی کیسا کڑا ہوتا ہے کہ منتظر شاخیں پھلوں کی خواہش میں حسرتوں کی زمین پر جھکی رہتی ہیں اور تب تک سر نہیں اٹھاتیں جب تک کسی کی جھکی ہوئی نظروں کے ترازو میں وصال کے پلڑے کو جھکا نہیں دیتیں ۔ وصال کی حسین رُتیں خوفِ ندامت سے انتظار کے پہلو میں یوں چھپی رہتی ہیں جیسے کسی کے پہلو میں بیٹھنے کی تڑپ دل میں اور دل سینے میں چھپا رہتا ہے ۔ میرے نزدیک اس فلسفے کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے کہ باہر کے موسم کا اندر کے موسم سے گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ باہر سے آنیوالے موسم بیرونی سطح پر اثر انداز ہوسکتے ہیں قلب کے نہاں خانوں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ موسم تو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے جیسے بیج کے منہ میں کونپل ، کونپل کے لبوں پہ تنا ، تنے سے جھولتی شاخیں ، شاخوں پہ کھلتے پھو ل ، پھل ، پتے اور پھر ایک کامل شجر جو باہر کی دنیا کو بھی رونق افروز کر دیتا ہے ۔ چنانچہ سورج کا یہ پیغام ایک ایسی آفاقی اہمیت کا حامل ہے جو زمین کے اردگرد پائے جانے والے دیگر ستاروں اور سیاروں کو بھی متنبہ کر رہا ہے کہ مدار سے نکلو گے تو سورج سے ہی نہیں خود سے بھی بچھڑ جائو گے اور جو خود سے بچھڑ جائے پھر اُس سے ملنے کوئی نہیں آتا ۔ موسم تو گویا آتا ہی نہیں… نہ بہار کا موسم …نہ اعتبار کا موسم ۔