مُشکلات میں گھِرے جنابِ وزیرِاعظم؟

جنرل پرویز مشرف برسرِ اقتدار تھے کہ جب  2 دسمبر 2002ء کو مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کا یہ بیان قومی اخبارات کی زینت بنا کہ ’’جِس طرح مُغل بادشاہ نصِیر الدّین ہمایوں ایران میں جلاوطنی کی زندگی گزار کر دوبارہ ہندوستان کے تخت پر بیٹھ گیا تھا اُسی طرح ایک دِن میاں نواز شریف بھی سعودی عرب سے واپس آ کر اقتدار سنبھال لیں گے۔‘‘ ہمایوں بادشاہ کو دوبارہ ہندوستان کا بادشاہ بننے کے لئے 15سال جدوجہد کرنا پڑی لیکن میاں نواز شریف 13سال 7 ماہ اور 23 دِن بعد تیسری بار وزیرِاعظم منتخب ہو گئے۔ دوسری بار ہمایوں بادشاہ کو صِرف 11 ماہ اور 25 دِن حکومت کرنے کا موقع مِلا۔ میاں نواز شریف کو اقتدار سنبھالے صِرف ایک سال ایک ماہ اور 2 دِن ہُوئے ہیں۔
ہمایوں کی بادشاہت کا دوسرا دَور بھی۔ مُشکلات کا دَور تھا ۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں اور صوبوں میں بغاوتیں ہو رہی تھیں۔ چور اور ڈاکو بے لگام تھے۔ رعایا بدحال تھی اور ضروریاتِ زندگی اُن کی قوّتِ خرید سے باہر تھِیں۔ اُس دَور میں اقوامِ متحدہ کا وجود نہیں تھا اور نہ ہی عالمی بنک آئی ایم ایف اور سُودِ مرکب کے عوض مختلف مُلکوں کو قرضے دینے والے دیگر بڑے بڑے بین الاقوامی اداروں کا۔ ہمایوں بادشاہ کے پاس ایٹم بم نہیں تھا۔ ایٹم بم تو کیا؟ پورے ہندوستان میں بجلی ہی نہیں تھی اور گیس کا استعمال بھی شروع نہیں ہُوا تھا۔ بادشاہ کے کسی رشتہ دار، گورنر، وزیر، درباری، جرنیل، قاضی اور کسی محکمہ کے پاس دُہری شہریت تھی اور نہ ہی کسی جلاوطن ہندوستانی کے پاس کہ وہ کسی بھی بیرونی مُلک سے ویڈیو لِنک کے ذریعے رعایا سے خطاب کر کے اُنہیں بادشا ہ کے خلاف ’’انقلاب‘‘ لانے پر اُکسا سکے۔ ہمایوں بادشاہ کا شیر خان سُوری سے شکست کھا کر اور ہندوستان سے بھاگ کر ایرا ن میں پناہ لینے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اُس کے سارے بھائی اُس کی جان کے دُشمن تھے۔ ہر بھائی خود بادشاہ بننا چاہتا تھا۔
میاں نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف ہر حال میں برادرِ بزرگ کے وفادار اور تابع رہے اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے میاں شہباز شریف نے اہلِ پنجاب کے لئے جو خدمات انجام دیں اُن کی وجہ سے ہی مسلم لیگ (ن) کو وفاق اور پنجاب میں اقتدار مِلا۔ 2008ء  کے عام انتخابات کے بعد یہ پنجاب اور اہلِ پنجاب کے لئے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے میاں شہباز شریف کے لئے خدمات کی وجہ سے ہی مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اور وفاق میں حکومت مِلی ہے۔ پنجاب وزیرِاعظم نواز شریف کی "Power Base" ہے۔ بلوچستان میں اُن کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔ سندھ میں سابق رقِیبوں اور اب ’’رفیقوں‘‘ کی اور خیبر پی کے میں اُن کے سب سے بڑے رقِیب جناب عمران خان کی قومی اسمبلی میں عمران خان کی 34 نشستیں ہیں لیکن وہ پارلیمنٹ سے باہر سڑکوں پر جلسوں، جلوسوں اور لانگ مارچ کے ذریعے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں۔
کینیڈین شَیخ اُلاِسلام اپنا الگ لُچّ تلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُس کا تازہ اعلان یہ ہے کہ ’’مَیں شریف برادران کو بھاگنے نہیں دُوں گا اور بدعُنوان لوگوں کو خود پھانسی دُوں گا، خواہ اُن کی تعداد لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو!‘‘ کیا یہ شخص پاگل ہے؟ اگر پاگل ہے تو اِسے پاگل خانے میں بند کیوں نہیں کِیا جاتا؟ کیا اِس  شخص کو پاک فوج سے اظہارِ یک جہتی کا اعلان کر کے  ؎
’’بک رہا ہُوں جنُوں میں کیا کیا کُچھ؟‘‘
کا لائسنس مِل گیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو نچا نچا کر اور مُنہ سے بددُعائوں اور گالیوں کے شعلے اُگل کر ہزل ؔ کے بادشاہ اُستاد چِرکِیںؔ سے بھی سو ہاتھ آگے نکل گیا ہے؟ لاکھوں انسانوں کو پھانسی دینے کے لئے یہ شخص کِس بیرونی طاقت کے اشارے پر ناچ رہا ہے؟
مسلم لیگ (ن) میں پارٹی ڈِسپلن کا فقدان ہے۔ وفاق اور پنجاب کا ہر وزیر ہر مسئلے پر بولنا اور اپنی عِلمیت بھِگارنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ چودھری نثار علی خان کی وزیرِاعظم سے ناراضی ختم ہو یا نہ ہو؟ عام لوگوں کو اِس سے کیا غرض؟ لیکن کسی نہ کسی سٹیج پر کوئی نہ کوئی تو سابق ’’مردِ آہن‘‘ سے ضرور پوچھے گا کہ  ’’اے جانِ عالم! آپ نے قومی اسمبلی میں دہشت گردوں کو ’’محبِّ وطن پاکستانی‘‘ ہونے کے سرٹیفکیٹس کیسے جاری کر دیئے؟ ہمایوں بادشاہ کے دَور میں ہندوستان کسی غیر مُلکی مالیاتی ادارے کا مقروض نہیں تھا۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کا بھی مسئلہ نہیں تھا۔ قومی اور بین الاقوامی بنک تو تھے ہی نہیں کہ بااثر لوگ اُن سے بڑے بڑے قرضے لے کر ہڑپ کر جاتے اور لُوٹی ہوئی دولت بیرونی بنکوں میں جمع کرا دیتے۔  
یہ مؤقف درُست نہیں ہے کہ ’’عوام نے مسلم لیگ (ن) کو بھارت سے دوستی اور تجارت کرنے کے لئے ووٹ دئیے تھے۔‘‘ عوام نے تو آپ کو بھارت کے قبضے سے مقبوضہ کشمیر کو چھُڑانے اور اگر ضرورت پڑے تو اُس سے جنگ کرنے کے لئے ووٹ دئیے تھے۔ آپ نے عوام کی غُربت، جہالت اور بیماری دُور کرنے کے لئے 28 مئی 2013ء کو کئے جانے والے اپنے وعدے کے مطابق ’’معاشی دھماکا‘‘ کیوں نہیں کِیا؟ ہمایوں بادشاہ کا ذخیرہ اندوزوں، بلیک مارکیٹرز اور اپنی مرضی سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں مقررکرنے والوں پر کوئی کنٹرول ہی نہیں تھا  اور آپ کا بھی نہیں ہے۔ پھر عوام کو جمہوریت  اور زرمبادلہ کے ذخائر کے بڑھنے کا کیا فائدہ؟ کیا کم آمدن والے لوگوں کو لوٹنے والے حاجی/ نمازی تاجروں کے لئے کوئی سزا نہیں ہے؟
صدرِ مملکت جناب ممنون حسین سرکاری خرچ پراپنے لائو لشکر سمیت عمرے کی سعادت حاصل کر کے  واپس آ گئے ہیں اور قومی اسمبلی کے سپِیکر جناب ایاز صادق بھی اور مولانا عبدالغفور حیدری ایک ماہ کے لئے سعودی عرب چلے گئے۔ کیا ایک مفلوک اُلحال مُلک کے حُکمرانوں کا سرکاری خزانہ پر بوجھ بننا جائز ہے؟ یا صریحاً  خیانت؟۔کیا وزیرِاعظم نواز شریف اِس طرح کی بِدّعت کو ختم نہیں کر سکتے۔ وزیرِاعظم کے لئے اور بھی بے شُمار مُشکلات ہیں کیوں کہ وہ مرزا غالبؔ کی طرح یہ کہہ کر اپنی جان نہیں چھڑا سکتے کہ  ؎
’’مُشکلیں اتنی پڑِیں مُجھ پر کہ آساں ہو گئِیں‘‘

ای پیپر دی نیشن