ریلوے حادثہ میں شہیدوں کے جنازے میں صرف عسکری لیڈر؟

گوجرانوالہ ریلوے حادثہ میں شہید ہونے والے فوجیوں کی نماز جنازہ میں ایک ہی شخص تھا سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نہ تھا جبکہ گوجرانوالہ پنجاب کا شہر ہے۔ زبردست سیاستدان سخت گیر وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق جائے حادثے پر گئے تھے۔ شاید وہ صرف یہ اعلان کرنے گئے تھے کہ یہ دہشت گردی ہے۔ اس میں ریلوے کا یعنی ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ اگر ہوتا بھی تو کیا ہو جاتا۔ ایسے معاملوں میں کسی کو سزا ملی ہے؟ خواجہ سعد رفیق کے لئے خوشخبری ہے کہ شیخ رشید بھی وزیر ریلوے تھے۔ ایک حادثے میں ان سے کہا گیا کہ آپ استعفیٰ کیوں نہیں دیتے یہ سوال ہی غلط ہے۔ آج تک کئی محکموں میں قیامتیں گزر گئیں کسی نے استعفیٰ دیا ہے؟ شیخ صاحب نے فرمایا۔ میں ریلوے کا وزیر ہوں ریل گاڑی کا ڈرائیور نہیں ہوں۔ تو خواجہ صاحب کیوں استعفیٰ دیں۔ جبکہ مرنے والے ریلوے افسران نہ تھے صرف ڈرائیور تھا۔
شہید ہونے والے فوجی ہیں۔
خواجہ صاحب سے پرانی واقفیت ہے۔ جسے دوستی نہیں کہا جا سکتا۔ وزیر شذیر اور فقیر کی دوستی نہیں ہو سکتی۔ فقیر کے ساتھ جو قافیہ وڈیروں کے پاس ہے۔ وہ حقیر ہے۔ وزیر شذیر اور فقیر حقیر؟ وہ تھوڑی دیر رک جاتے اور شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ میں پاک فوج کے سربراہ کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ ریلوے کے سربراہ کے طور پر صوبے کا سربراہ بھی نہ آیا۔ سنا ہے وہ تیار تھے۔ پھر کیا ہوا۔ یہ بھی برادرم شعیب بن عزیز سے پوچھنا پڑے گا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی خبروں سے جھلکیاں زیادہ موثر اور مزیدار ہوتی ہیں۔ برادرم شعیب شاعر بھی کمال کا ہے وہ اصل میں اہل خبر کے قبیلے کا آدمی ہے۔ مگر باخبر ہونے کے سارے ہنر جانتا ہے۔ دنیا اور ان دیکھی دنیا کا مسافر ہے۔
جو رہی سو بے خبری رہی
وہ تخلیقی مستی میں سلگتا ہے تو شعر کہے یا خبر بنائے۔ دونوں میں کمال کا سلیقہ رکھ دیتا ہے۔ گوجرانوالہ سے ن لیگی سیاستدان اور سابق وزیر غلام دستگیر خان بھی جنازے میں نہ آئے۔ ان کے نام کے ساتھ غلام نہ بھی لکھا جائے تو سابق وزیر ہی کافی ہے۔ ان کا بیٹا خرم دستگیر وزیر شذیر ہے۔ دستگیر خان کے خوش و خرم ہونے کے لئے یہی بہت ہے۔ بالکل ساتھ سیالکوٹ اور نارووال ہے۔ خواجہ آصف اور احسن اقبال نہ تھے۔ کوئی ایم این اے اور ایم پی اے بھی نہ تھا۔ مسلم لیگ ن کے ممبران گوجرانوالہ میں بہت ہیں مگر تحریک انصاف کا بھی کوئی ممبر نہ تھا اس سارے واقعے میں کہنے کی بات یہ ہے کہ عسکری لیڈر سیاسی لیڈر سے بازی لے گیا ہے۔ اس طرح کے کئی موقعوں پر صرف وہی منظر میں ہوتے ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے لئے فائدہ تو نواز شریف کو ہوا مگر سامنے راحیل شریف نظر آئے۔
سیاستدان صرف گوجرانوالہ حادثے میں ٹی وی چینل پر بحث مباحثہ کرتے رہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کا بیان خواجہ سعد رفیق کے لئے چیلنج ہے۔ اصل رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دہشت گردی نہیں تھی۔ کوئی فنی خرابی تھی جس کا خواجہ صاحب کو پتہ نہیں چلنے دیا جا رہا۔ وہ زبردست وزیر ہیں۔ انہیں اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔ دھوکے میں رکھا جا رہا ہے۔ نوائے وقت کے ادارے میں ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی نے اس کا بہت اچھا تجزیہ کیا ہے۔ اگر یہ دہشت گردی بھی ہے تو بھی ریلوے کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا؟
کچھ دن پہلے حامد میر کے پروگرام میں خواجہ صاحب اپنی ریلوے کی تعریفیں کر رہے تھے۔ جس ٹرین میں خواجہ صاحب اور میر صاحب نے سفر کیا اسے تو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ اللہ کرے کبھی حادثہ پیش نہ آئے۔ میر صاحب کو حادثے کرانے کا بڑا تجربہ ہے۔ حادثہ بھی ہو اور کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ یہ ہوتا ہے سیاسی حادثہ؟ فوجیوں کو لے کے جانے والی ٹرین سے ایک گھنٹہ پہلے ٹرین صحیح سلامت گزر گئی۔ اس لئے ٹرینیں ٹھیک ہیں اور پل بھی مضبوط ہیں۔ ایک گھر کی چھت کل نہیں گری تھی تو وہ مضبوط تھی تو آج کیوں گر پڑی؟
پانچ سال سے 159 ریلوے پل خطرناک ہیں اور کسی کی مرمت نہیں ہوئی بلکہ کئی بار کاغذوں میں مرمت ہو چکی ہے۔ اس کی ادائیگیاں بھی ہو چکی ہیں۔ 7580 پل 150 سال سے بھی زیادہ عمر رسیدہ ہیں مگر کھڑے ہیں بلکہ کھڑے کے کھڑے ہیں۔ یہ پل جس پر حادثہ ہوا۔ یہ تو صرف سو سال پرانا ہے۔ آدمی بھی تو کوئی 70 سال میں مر جاتا ہے کوئی 90 سال تک نہیں مرتا۔
مگر ہمارے ہاں سارے ریلوے پل انگریزوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ ریلوے بھی انہی کی بنائی ہوئی ہے۔ ہم نے اس میں کچھ اضافہ نہیں کیا۔ بس کچھ فنڈز خرچ کئے ہیں۔ ہمارے ہاں خرچ کرنے کے معانی اپنی جیب بھرنا ہے اب یہ بات بہت کہلوائی جا رہی ہے کہ ریلوے کا نظام بہت بہتر ہو گیا ہے۔ خواجہ صاحب نے کمال کر دیا ہے۔ کمال تو انہوں نے کئے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ خواجہ صاحب نے کام کیا ہے مگر کیا ریلوے ٹھیک ہو گیا ہے؟
ایسے پلوں کی سکیورٹی کا انتظام بھی ہونا چاہئے۔ وزیر ریلوے کی سکیورٹی میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ وہ نماز جنازہ میں بھی شاید اسی لئے شریک نہیں ہوئے تھے کہ سکیورٹی خدشات تھے مگر یہ خدشات جنرل راحیل شریف کے لئے نہیں تھے؟
میرے شہر ضلع میانوالی کی طرف ماڑی انڈس چلتی ہے۔ برادرم خالد احمد نے ایک مشاعرے میں شرکت کرنے سے پہلے کہا تھا۔ ارے تیرے گھر کی طرف کوئی چنگی انڈس نہیں چلتی۔ ایک دفعہ لاہور ریلوے سٹیشن پر دہائی پڑ گئی کہ ماڑی انڈس عین وقت پر پہنچ گئی ہے۔ بعد میں یہ پریشانی دور ہو گئی کہ وہ پورے 24 گھنٹے لیٹ تھی۔
اپنی نااہلی کو کوئی بھی نہیں مانتا۔ دہشت گردی کا شوشہ محکمے کو ساری ذمہ داریوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ بلور صاحب کے زمانے سے آج خواجہ صاحب کی ریلوے بہت بہتر ہے۔ تب میں نے اپنے ایک کالم کا عنوان رکھا تھا۔ سْن وے بلوری اکھ والیا۔ اب خواجہ صاحب کے دل میں نرم گوشہ ہونے کے باوجود میر صاحب کے ساتھ ریلوے کے لئے اس کی سیاسی فتوحات کا سن کر کالم لکھوں تو اس کا عنوان ہو گا۔ خواجے دا گواہ ڈڈو۔
جب ریلوے میں ریلوے افسران اور ریلوے حکام سفر کر رہے ہوں۔ اسے کبھی حادثہ پیش نہیں آتا اس کو وی آئی پی بنانے میں افسرانہ سیاست کام آتی ہے۔ اور جس گاڑی میں فوجی کسی مشن پر جا رہے ہوں اسے حادثہ پیش آ جاتا ہے۔ اور شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ میں صرف سپہ سالار اعلیٰ شریک ہوتا ہے۔ سیاست میں ریلوے کا بھی دخل ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے عسکری قیادت سیاسی قیادت سے مکمل تعاون کر رہی ہے۔ مگر ڈرے ہوئے سیاستدان کہتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بات ہوئی ہے کہ ریل اور ریل پیل دونوں زوروں پر ہیں۔

ای پیپر دی نیشن