کابل (اے پی پی+ بی بی سی) افغانستان میں تشدد کے واقعات میں 23 طالبان اور 7 فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے جبکہ ہلمند میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں تین بچے مارے گئے۔ نازیان میں طالبان سے جھڑپوں میں داعش کے 5 جنگجو ہلاک ہو گئے۔ ادھر ہرات میں طالبان نے پولیس پوسٹ پر حملہ کر کے دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ جوابی کارروائی میں 2 حملہ آور بھی ہلاک ہو گئے۔ افغان میڈیا کے مطابق وزارت دفاع کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران صوبہ قندوز، بغلان، سرائے پل، ہرات ، ہلمند ، اورزگان اور قندھار میں سکیورٹی فورسز کی مختلف کارروائیوں میں بیسیوں عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔ اس دوران بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا جبکہ کئی بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنایا گیا جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بارودی سرنگوں کے دھماکوں اور فائرنگ کے دیگر واقعات میں 7 افغان فوجی ہلاک ہوگئے۔ دریں اثناء صوبہ ہرات کے صوبائی پولیس چیف جنرل عبدالمجید نے بتایا کہ گزشتہ روز نامعلوم افراد نے سکول جانے والی لڑکیوں پر تیزاب پھینکا جس سے دو لڑکیاں زخمی ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آور موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ علاوہ ازیں صوبہ قندوز میں ڈاکٹروں کی بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز (طبیبان بے سرحد) نے اپنا ہسپتال بند کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سکیورٹی فورسز کی جانب سے سرچ آپریشن کے بعد ہسپتال کو بند کیا گیا۔ دریں اثنا افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر ریان سی کروکر نے کہا ہے کہ داعش سے افغانستان کیلئے درپیش خطرات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ ریڈیو فری یورپ کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ افغانستان کی حکومت اور امریکہ کی قیادت میں اتحادی ممالک بھی اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ داعش افغانستان کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ اس حوالے سے میری افغان حکام سے بات چیت ہوئی ہے۔ افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار کے کچھ علاقوں میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے مقامی لوگوں، خاص کر زمینداروں اور کسانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی فصلوں پر افیون کاشت نہ کریں۔ اس کے علاوہ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں داعش کے نام سے مسلح افراد سرگرم ہیں وہاں بھی لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ سگریٹ اور دوسری نشہ آور اشیا استعمال نہیں کر سکتے۔ صوبہ ننگر ہار کے ضلع شہر زاد میں ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ ’داعش کے افراد نے لوگوں کو کہا ہے کہ وہ زمینوں میں افیون کاشت نہ کریں۔ انھوں نے علاقے کی دکانوں میں بھی چرس، افیون، نسوار اور دیگر نشہ آور اشیا پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ جو لوگ چرس اور سگریٹ استعمال کرتے ہیں ان کے منہ پر طمانچہ مارا جاتا ہے۔‘ مقامی حکام نے ابھی تک اس حوالے سے کچھ نہیں کہا ہے کہ صوبہ ننگر ہار کے کچھ علاقوں میں داعش کے افراد نے افیون کی کاشت پر پابندی کیوں عائد کی ہے۔ اس صوبے میں داعش کے نام سے سرگرم افراد کی جانب سے بھی مزید معلومات فراہم نہیں ملی ہیں کہ یہ اقدام ان کی جانب سے کیوں اٹھایا گیا ہے۔ صوبہ ننگر ہار میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ افیون کی کاشت پر پابندی لگانا داعش کا اصول ہے یا صوبہ ننگر ہار میں داعش کے نام سے سرگرم افراد مقامی طور خود ہی یہ فیصلہ کر چکے ہیں۔ تاہم طالبان گذشتہ برسوں میں صوبہ ننگر ہار میں افیون کی کاشت پر پابندی نہیں لگاتے تھے۔