5 سے 16 برس کے بچوں کوتعلیم کی مفت فراہمی، آئینی ترمیم پر عمل نہ ہو سکا

لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) 18 ویں ترمیم کے ذریعے 5 سے16سال کی عمر کے بچوں کو تعلیم کی مفت فراہمی کی آئینی شق پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ مذکورہ ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 25 میں سب سیکشن اے کا اضافہ کرتے ہوئے قرار دیا گیا تھا کہ ایک سال میں ملک میں 5 سال سے لے کر 16 سال تک کے طلبا کیلئے تعلیم کی لازمی اور مفت فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ مذکورہ آرٹیکل پر عملدرآمدمیں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ناکامی کے باعث دستور پاکستان کے آرٹیکل 8 کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ قانونی حلقوں نے چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کی استدعا کی ہے جبکہ کئی شہریوں نے اس بارے اعلی عدالتوں سے بھی رجوع کر لیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت 5 سے 16 سال کی عمر کے طلبا و طالبات کیلئے تعلیم کی مفت فراہمی کو یقینی نہیں بنایا گیا بلکہ اس عمر کے طلبا کی لازمی تعلیم کیلئے بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے اس عمر کے ہزاروں طلبا فیکٹریوں اور پرائیویٹ دفاتر میں کام کر رہے ہیں۔ بعض لیگل تنظیموں اور وکلاء کی طرف سے اعلی عدلیہ کو بھجوائی درخواستوں اور اعلی عدالتوں ممیںدائر پٹیشنز میں کہا گیا ہے کہ حکومت دستور پاکستان کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق تعلیم کی مفت فراہمی کی پابند ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو سبسڈی دے اور ملک میں ایسی ٹاسک فورس بنائی جائے جو طلبا کیلئے لازمی تعلیم کا ہدف بھی حاصل کرے تاکہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچے ہر حال میں تعلیمی اداروں میں جائیں۔ درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماضی کی کئی حکومتوں کو بنیادی حوق کی عدم فراہمی پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے اس لئے موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کوبھی اپنی اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اس بارے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ درخواستیں دائر کرنے والے وکلاء نے کہا کہ اگر اعلی عدالتیں دستور پاکستان کے آرٹیکل 25 اے پر عملدرآمد کا حکم دیتی ہیں تو اس کا اطلاق سابقہ ادوار پر بھی ہو گا جس میں حکومت عملدرآمد کروانے میں ناکام رہی ہے۔ اگر کسی ملک میں آئین پر بھی عملدرآمد نہ ہو تو پھر قوانیفن کی حیثیت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن