قوی‘ قندیل پہ جتنا جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں نے لکھا ہے‘ اس کی سمجھ مجھے اسلئے نہیں آئی کہ یہ شوق نوابی تو باقی پنجاب میں بھی پایا جاتا ہے۔ یار لوگوں کو تو صرف یہ فکر بے کل کر رہی ہے کہ انگریزی‘ اردو‘ پنجابی‘ ہندکو‘ پوٹھوہاری‘ بلوچی‘ پشتو فرفر بولنے والی گھر سے بھاگ جانے والی‘ مگر پنجاب یونیورسٹی سے آرٹس میں ماسٹر کرنے والی ہمارے بلانے پہ کسی ہوٹل میں آ جائے گی یا صرف یہ دعوت ہلا گلا مفتی قوی کیلئے ہے‘ جبکہ مولانا طاہر اشرفی‘ مولانا فضل الرحمن میں صرف یہ کمی ہے کہ وہ مفتی نہیں ہیں۔ مگر دوبئی کی دَاسی و باسی تو دنیا بھر میں واہیات وڈیو اپ لوڈ کرنے میں مشہور تھے‘ سورة النور میں ارشاد ہے ”جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی اور بدکاری پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گا“ ہمیں یقین ہے کہ مفتی قوی نے اپنی شام مفت ہی میں رنگین نہیں کی ہو گی‘ گو مفتی صاحب نے تو مُتعہ Contract Marriage کے حق میں بھی فتویٰ دے دیا ہے‘ مگر ہم تو عیبوں پہ پردہ پوشی کے قائل ہیں‘ ہماری نظر میں ستم گر ہے وہ صحافت جو مسلمان کے بدن سے رُوحِ محمد نکالنے کیلئے ہاتھ پا¶ں مارتی ہے۔ جو فکر غرب کو فرنگی تخیل کا رنگ دیتی ہے اور اہلِ حرم سے ان کی پاکیزہ روایات چھیننے کے درپے ہے۔ ہمارے خیال میں ایسی صحافت ابلیس کی سیاسی دختر ہونے کا ثبوت مہیا کرتی ہے اور نئی نسل کو اپنی قدیم روایات کو معتبر و مدبرانہ انداز سے روشناس کرانا ہمارا مطمع نظر ہے۔ آفرین و تحسین ہے اداکار قوی خان پر جنہوں نے مفتی قوی خان کی عمر سے بھی زیادہ دنیائے رنگ و بو میں بسر کئے قیام پاکستان سے بھی پہلے وہ ریڈیو کے روحِ رواں تھے‘ مگر ان کے نامہ اعمال میں کوئی سیاہ کاری و سکینڈل نہیں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ قندیل سے کشیدگی کے بعد عید کا چاند دیکھنے کے بعد مفتی نے کس کا خوبصورت چہرہ دیکھا ہو گا۔ کاش یہ مفتی شہنشاہ اکبر کے دور میں پیدا ہوا ہوتا‘ تو یہ نورتن ہوتا کیونکہ موصوف بھی حرم میں نکاح کر کے بے شمار لونڈیاں رکھنے کا قائل ہے۔ شرط یہ ہے کہ بیوی صرف ایک ہو۔ مدرسے کے نام پہ عقیدت مندوں کے چندوں سے چونچلے کرنے والے کو اگر مفت کی کمائی نہ ہوتی۔ تو شاید اس کی ابھی شادی بھی نہ ہوئی ہوتی۔ علی ہجویریؒ فرماتے ہیں کہ مرتعشؒ کا فرمان ہے کہ تصوف نیک خلق کا نام ہے۔ پہلے یہ کہ احکام الٰہی کو بغیر ریاکاری اور نمود و نمائش کے پورا کرے۔ خلقت میں بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کے ساتھ پیش آئے‘ برابر کے لوگوں سے انصاف کرے اور کسی سے بھی معاوضے کی توقع نہ رکھے اور خاص طور پر خود ’شیطانی رجحانات‘ ہوا و ہوس سے مکمل پرہیز کرے‘ غور و فکر کی عادت اپنائے۔ اس میں مسخرے پن والی عادات نہ ہوں۔ کیونکہ جب عام لوگ ان نام نہاد (ظاہر پرستوں) کو ناچتے گاتے‘ ٹھٹھے مذاق کرتے اور ان لوگوں کو طعام کے نوالوں پہ پڑتے اور حاکموں کے ایوانوں میں نوازشات لیتے نظر آتے ہیں تو عوام تمام اولیائے کرام سے بدظن و بدعقیدہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ طمع ایک عالم کو بدکاری و زنا میں ڈال دیتا ہے۔ یاد رکھیں ایسے اہل طریقت برباد ہو جاتے ہیں۔ طریقت برباد نہیں ہوتی۔تحریک انصاف کے مفتی قوی‘ عمران خان کی بانہوں میں بانہیں ڈالنے‘ اور گلے لگنے کی خواہش مند قندیل بلکہ ریحام اور جمائمہ کی جگہ لینے کی حریص اور وینا ملک ہندوستان جا کر ہندو الیشمت کی مالش کرنے والی تحریک انصاف میں شمولیت کی متمنی‘ میرا نے بھی اپنا وطیرہ بنا لیا ہے کہ میں نے عمران خان کے ساتھ شادی کرنی ہے۔میرا مشورہ عمران خان کو یہ ہے کہ وہ قندیل کو اپنی بیٹی بنا لیں‘ ان کی بہنیں بھی اعتراض نہیں کریں گی کہ وہ ان سے تقریباً چالیس سال چھوٹی ہے۔ بیٹیوں کی عمر کی بیٹی کو بیٹی کہنے میں مجھے تو کوئی اعتراض نہیں بلکہ عمران اس کا مناسب رشتہ دیکھ کر شادی بھی کر دیں تو شادی کا خرچہ میں برداشت کر لوں گا۔جہاں تک مفت ہی قوی کا تعلق ہے۔ وہ علی ہجویریؒ کے مشورے کو مانیں کہ نکاح دین کا حصار ہے اور شہوت شیطان کا ہتھیار ہے نکاح اس کے شر سے بچانے والا ہے۔ نکاح مرد عورت سب کیلئے جائز ہے۔ جو اہل و عیال کا حق ادا نہ کر سکے اس کیلئے نکاح مسنون ہے اور جو حرام سے نہ بچ سکے اس پر نکاح فرض ہے۔ اور قوی تو ان گنت نکاح کرنے کو جائز سمجھتے ہیں کیا قوی اپنے مقوی نسخے کو منظر عام پہ لائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر قندیل غلام مصطفی کھر کے پاس اندازِ قویانہ میں پہنچ جاتی تو ان کا عمل مفتی قوی سے مختلف ہوتا اور وہ اسے دعوت گناہ کی بجائے دعوتِ نکاح دیتے‘ اور اسے یہ کہنا نہ پڑتا کہ قوی نے جو میرے ساتھ کیا ہے‘ وہ میں بتا نہیں سکتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قندیل وہاں کیا کرنے گئی تھی۔ قوی اس بات پر فتویٰ صادر کریں کہ اماں حوا کے پاس پہلے باوا آدمؑ گئے تھے یا حوا خود آئی تھیں۔ تو لوگوں کی توجہ یو ٹرن لے لے گی۔ مدعا تحریر یہ ہے کہ کیا مفتی قوی جیسے لوگوں کہ راہ راست پہ لانے کیلئے مفتی منیب الرحمن اور مولانا شیرانی کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے؟ میری مفتیان پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ ایسے مفتی نما انسان اور انسان نما اہل غرض و اہل قریہ کے فتنے کی سرکوبی و سازش کیلئے بھی متفیقانہ فیصلہ و فتویٰ دیں کہ اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا اور اس سے قوی کا کسی اور کی عزت پہ بھی حملہ کرنے کا تدارک ہو جائے گا!