آج خدا کے حضور عاجزی سے گڑگڑا کر اپنی بداعمالیوں پر معافی مانگنا ہوگی

Jul 06, 2016

اداریہ

رمضان کریم میں مقدس سعودی دھرتی پر اورروضۂ رسول ؐ کے سامنے چار خودکش دھماکے‘ ہماری اجتماعی پستی و بدبختی کی علامت
رمضان کریم کے مقدس مہینے میں عیدالفطر سے دوروز قبل سعودی عرب کے تین شہروں مدینہ منورہ‘ جدہ اور شیعہ آبادی والے علاقے قطیف میں 24 گھنٹے کے دوران چار خودکش دھماکوں نے پوری مسلم امہ کو لرزا کر رکھ دیا۔ ان دھماکوں میں چار سکیورٹی اہلکار اور دو شہری شہید ہو گئے جبکہ دو اہلکار زخمی ہوئے۔ سب سے پہلے قطیف میں واقع مسجد العمران کے قریب دو خودکش دھماکے ہوئے تاہم اس میں کوئی شہری زخمی نہیں ہوا۔ اسکے بعد جدہ میں امریکی قونصل خانے کے باہر خودکش دھماکہ ہوا جس میں دو سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ چوتھا خودکش دھماکہ مدینہ منورہ میں جنت البقیع کے قریب ہوا جس میں چار سکیورٹی اہلکار اور دو شہری شہید ہوگئے۔ اس دھماکے کے بعد دھوئیں کے کالے بادل دکھائی دیئے۔ العربیہ کے مطابق بدبخت حملہ آور نے مسجد نبوی کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر سکیورٹی اہلکاروں نے اسے روکا تو اس نے مسجد نبوی کے ساتھ موجود پارکنگ میں خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ وہاں سکیورٹی اہلکاروں کا ایمرجنسی سنٹر موجود تھا۔ عرب میڈیا کے مطابق مدینہ منورہ میں سکیورٹی سخت کردی گئی ہے اور مسجد نبوی کے اردگرد سنیپ چیکنگ جاری ہے۔ خبر رساں ایجنسی آن لائن نے دعویٰ کیا ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک دھماکہ پارکنگ کے قریب اور دوسرا جنت البقیع کے قریب ہوا جو افطاری سے کچھ دیر پہلے کیا گیا تاہم صورتحال پر قابو پالیا گیا اور افطاری معمول کے مطابق مسجد نبوی میں ہوئی جس کے بعد نماز تراویح بھی ادا کی گئی۔ سعودی وزارت داخلہ نے مدینہ منورہ میں خودکش دھماکے کی پہلے تردید کی اور پھر اسکی تصدیق کردی۔ ذرائع کے مطابق قطیف کے دھماکے میں ایک پاکستانی شہری کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔
سعودی سرکاری حکام نے جدہ میں امریکی قونصل خانے کے قریب حملہ کرنیوالے شخص کو پاکستانی قرار دیا ہے جو سعودی حکام کے بقول سعودی عرب میں گزشتہ 12 سال سے مقیم عبداللہ گلزار خان ہے۔ 35 سالہ عبداللہ گلزار اپنی بیوی بچوں اور سسرالیوں کے ساتھ سعودی عرب میں مقیم تھا اور بطور ٹیکسی ڈرائیور کام کررہا تھا۔ سعودی حکام کے مطابق مدینہ منورہ میں خودکش حملہ کرنیوالا 18 سالہ عمر عبدالہادی سعودی باشندہ تھا۔
مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ کی علامت مقدس سعودی دھرتی اور بالخصوص تاجدار حرم‘ سرور کائنات‘ رحمۃللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ کے شہر مدینہ منورہ میں روضۂ رسولﷺ کے قریب دھماکے پر پوری مسلم امہ سکتے کے عالم میں ہے کہ آج ہم نے اپنی بدنصیبی کا یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ اس ننگ انسانیت واقعہ پر مذمت کا لفظ تو بہت حقیر نظر آتا ہے جبکہ ہمارے سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں کہ ہم خدا کے حضور اپنے نامۂ اعمال میں کیا لے کر جارہے ہیں۔ کیا کبھی روضۂ رسولﷺ کے پاس ایسی سفاکیت کا تصور بھی کیا جا سکتا تھا۔ اگر آج ہمیں یہ بدنصیب دن دیکھنا پڑا ہے تو اس پر شرمسار ہونا بھی محض ریاکاری محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر گڑگڑا کر اپنے گناہوں‘ بداعمالیوں‘ برگشتگیوں اور ذہنی فتور و پراگندگی پر معافی مانگنی ہے۔ ہمارے اعمال ہرگز ایسے نہیں کہ بارگاہِ ایزدی میں ہمارے لئے معافی کی کوئی گنجائش نکلے مگر امتِ محمدیہ کیلئے رحمت‘ مغفرت اور نجات کی نوید بن کر آنیوالے رمضان کریم کی بدولت پوری مسلم امہ کی جانب سے اجتماعی معافی ربِ کائنات کے حضور شاید ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے۔
مقدس سعودی دھرتی پر چار خودکش حملوں کے حوالے سے کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ کسی اور کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ یہاں تو کوئی غیرمسلم پر بھی نہیں مار سکتا کیونکہ غیرمسلموں کے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں داخلے پرمکمل پابندی عائد ہے اس لئے خودکش دھماکوں کا جو بھی فتنہ اٹھا ہے وہ ہمارے اندر سے ہی اٹھا ہے۔ اسکے کیا پس پردہ محرکات و عوامل اس میں جائے بغیر ہم اس سفاکانہ دہشت گردی کا جائزہ لیں تو سوائے ندامت کے ہمیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ اس قبیح ترین سفاکانہ فعل نے پہلے ہی آزمائشوں کی زدمیں آئی مسلم امہ کو کہیں کا نہیں چھوڑا اور یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہزیمت‘ رسوائی‘ نامرادی ہمارے مقدر میں لکھی گئی ہے جس کے ازالے کا ہم میں کوئی چارہ ہے نہ کوئی تدبیر نظر آتی ہے۔ ایسا فتنہ رمضان کریم کے مقدس مہینے میں محسن انسانیت کے گھر میں اٹھایا گیا۔ ہم ایسا بدنصیب دن دیکھنے کیلئے زندہ کیسے رہ گئے ہیں اور اب ہم کس منہ سے عید کی خوشیاں منائیں گے۔ دنیا کو اپنے حوالے سے شرف انسانیت اور مذہبی رواداری کا پیغام کیسے پہنچائیں گے‘ کیسے اپنے پرامن‘ صلح جُو اور اخوت و بھائی چارہ سے پیوستہ ہونے کا یقین دلائیں گے۔ خدا ہمیں معاف فرمائے کہ ہمارے اعمال آج شانِ رسالتؐ میں گستاخی تک کی نوبت لے آئے ہیں۔
مقدس سعودی دھرتی پر اور روضۂ رسولﷺ کے پاس سفاکانہ دہشت گردی کی بے شک پوری دنیا میں مذمت کی جا رہی ہے اور مسلم امہ میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے جبکہ ہم ایسے بدقسمت ٹھہرے ہیں کہ جدہ کے خودکش حملے میں ہمارے ملک خداداد کا ایک مکروہ باشندہ بھی مجرم نکلا ہے۔ اس پر ہم کیا وضاحت پیش کریں‘ کیا صفائی دیں اور کیا عذر ڈھونڈ کے لائیں۔ایسے بدخصلت بھی ہمارے مقدر میں لکھے گئے ہیں جو دین اسلام کی عملداری کے نام پر اپنے مکروہ ایجنڈا کو ہم پر تھونپنے کی کوشش میں بحیثیت مجموعی پوری مسلم امہ کی رسوائی و بدنامی اور ہزیمتوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ بے شک ان بدبختوں کو مسلمان اور انسان تک نہیں کہا جا سکتا مگر ہمارے اندر سے ہی شرم سے سر جھکانے والے ایسے مکروہ فعل کی آخر نوبت ہی کیوں آئی۔ کیا یہ صورتحال پوری مسلم قیادتوں کیلئے شرمساری کے ساتھ اپنے حالات کا جائزہ لینے کی متقاضی نہیں اور کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم انتشار امت کا باعث بننے والے اپنے فروعی مسلکی اختلافات کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کی خاطر تج دیں اور امتِ واحدہ کی شکل اختیار کرلیں۔ کیا اب بھی ممکن نہیں کہ خود کو دامن گیر ہوتی نفرتوں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی چارہ کرلیں‘ دین اسلام کی رواداری کو اپنا لیں‘ بلاتفریق و امتیاز سب مسلمان بھائیوں کو بلاکدورت گلے لگالیں اور اتحاد امت کی علامت بن جائیں۔
مقدس سعودی دھرتی پر ننگِ وجود خودکش حملے بحیثیت مجموعی ہمارے لئے عبرت کا مقام ہیں۔ کیا اسکے بعد بھی ہم بھٹکتے ہی رہیں گے اور ذہنی خلفشار و پراگندگی کو ہی اوڑھے رکھیں گے…؎
اے خاصۂ خاصانِ رسل‘ وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
خدا ہمیں ہدایت دے اور ہماری بداعمالیوں کو معاف فرمائے مگر ہم نے اپنی ہزیمتوں اور رسوائیوں کے اہتمام میں اپنے تئیں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر مقدس سعودی دھرتی اور حرم پاک میں خودکش حملوں کی پستی و پسماندگی کو مسلم امہ کے زوال سے تعبیر کیا جائے اور اپنی بدبختی کو خود ہی دعوت دینے کے مترادف قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ خدا ہمارے حال پر رحم فرمائے‘ ان سفاکانہ خود کش حملوں نے ہمارے لئے رمضان کریم کی فضیلتیں اور عید کی خوشیاں بے معنی بنادی ہیں۔

مزیدخبریں