یہ شہر سطح سمندر سے تقریباً 619 میٹر بلندہے اور وہ مشرق کی جانب39 درجہ 55 دقیقہ کے طول پر اور شمال کی جانب خط استوا سے24 درجہ اور15 دقیقہ کے عرض پر واقع ہے۔ 14صدی پہلے یہ شہر یثرب کے نام سے موسوم تھا، بقول زجاج یہ شہر یثرب بن قانیہ بن مہلائیل بن ارم بن عیل بن عوص بن ارم بن سام بن نوح کا آباد کیا ہوا ہے اور اسی لیے یثرب کے نام سے موسوم ہوا۔ بعض مورخین کے بیان کے مطابق اسکو یثرب اس لیے کہتے تھے کہ یثرب نامی ایک عملقی شخص نے اس شہر کو بسایا تھا اور آخر میں یہودی قبائل بنو نضیر و بنو قریظہ و بنو قینقاع کے ہاتھ آگیا۔300ء میں بنو ازد کے دو قبائل اوس و خزرج نے اسکی سرحد میں سکونت اختیار کی اور492ء میں اس پر قابض ہو گئے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ لفظ یثرب مصری کلمہ ’’اتربیس‘‘ سے بگڑ کر بنا ہے، اگر اِسے درست مان لیا جائے تو اِس کا مطلب ہے کہ عمالقہ نے مصر سے نکلنے کے بعد اِسے بسایا ۔ مورخین کیمطابق اس شہر کی آبادی 1600سال قبل مسیح میں شروع ہوئی۔ یثرب میں بسنے والے قبائل بیشتر یہودی المذہب تھے مگر کبر و حمیت کی بنا پر اِن میں باہم اتنے نزاع تھے کہ گویا ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ اوس و خزرج کی خانہ جنگی کو ایک صدی کا زمانہ گزر چکا تھا کہ سید دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و تبلیغ کا چرچہ مکہ ونواح میں پھیلنا شروع ہوا۔ اِسی دوران یثرب کے خاندان عبدالاشہل کے چند آدمی قریش کو اپنا حلیف بنانے کی غرض سے مکہ آئے تو اسلام کے بارے میں بھی روشناس ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اسلام کی پاکیزہ تعلیم سے آگاہ کیا اور قرآن مجید کی چند آیات بھی سنائیں جس کے بعد رفتہ رفتہ یثرب کے نامور قبیلہ عبدالاشہل کا ہر مرد وزن حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ اب یثرب میں ایک کثیر جماعت اسلام کی نصرت اور پیغمبر اسلام ﷺکے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کیلئے تیار ہوچکی تھی۔ قریش مکہ کے مظالم بڑھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کریثرب تشریف لے آئے اور آپ ﷺ نے یثرب کو اپنا شہر قرار دیدیا۔ مکہ المکرمہ سے جانب شمال دو سو ساٹھ میل کے فاصلے پر واقع یہ شہر کوئی اور نہیں بلکہ مکہ المکرمہ کے بعد دنیائے اسلام کا سب سے پیارا، بابرکت اور مقدس شہر مدینہ المنورہ ہے، جہاں اللہ کے آخری رسول سید الانبیاء احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک بھی موجود ہے۔
حرم مدینہ المنورہ کی حد اندازاً بارہ میل تک ہے، ایک روایت میں مدینہ کے حرم کی حدود اطراف میں موجود پہاڑ ’’جبل عائر سے جبل ثور‘‘ تک بیان کی گئی ہے،جسکے اندر شکار کرنا، درخت اکھاڑنا، گھاس اکھاڑنا حرام ہے، لیکن پیر کے روزدہشت گردوں نے اِس شہر میں اسلامی اور انسانی تاریخ کا سب سے گھناؤنا کام کیا۔ یہ وہ مذموم کام تھا، جو چنگیز خان اور ہلاکوں خان جیسے سنگدل اور ظالم بھی کرنے کا خیال اپنے ذہن میں نہ لاسکے، لیکن دہشتگردوں نے دہشتگردی کی اپنی مکروہ کارروائی کیلئے اِس بار اِس مقدس شہر کا انتخاب کیا، جس کے بارے میں صحابی رسول ﷺ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اے اللہ ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خلیل اور پیغمبر تھے جن کی زبان پر تو نے مکہ کو بلد الحرم قرار دیا۔ اے اللہ ! میں تیرا بندہ اور پیغمبر ہوں اور مدینہ کو اسکے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان تک حرام قرار دیتا ہوں‘‘۔ دہشتگردوں نے اُس شہر کو نشانہ بنایا، جسکے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی’’اے اللہ ! مدینہ کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے، ( بخاری )‘‘۔ ظالموں نے اُس شہر پر حملہ کیا جسکے بارے میں ترمذی کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص مدینہ شریف میں رہے اور مدینے ہی میں اس کو موت آئے، میں اسکی سفارش کروں گا‘‘۔دہشت گردوں نے اُس شہر پر حملہ کیا جسکے بارے میں شعب الایمان میں البیہقی کی روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص خالص پاک نیت کیساتھ میری زیارت کیلئے آیا، قیامت کے دن وہ میرے پڑوس میں ہوگا اور جو مدینہ شریف میں رہ کر صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزراتا رہا، میں اس کیلئے قیامت کے دن گواہ اور سفارشی ہوں گا اور جو حرمین شریفین میں موت پائے گا وہ قیامت کے دن امن پانے والوں میں ہوگا‘‘۔اپنی زندگی اور آخرت خراب کرلینے والے دہشتگردوں نے اب اُس شہر کو نشانہ بنایا ہے کہ سفر سے واپسی پر جس شہر کے مکانات کی دیواروں کو دیکھ کر نبی کریم ﷺ مگن ہوجاتے اور سواری کو تیز کردیتے۔ شیطانوں نے اب کی بار اُس مقدس شہر کو اپنی تخریب کا ہدف بنایا ہے کہ جس( کے بارے میں بخاری شریف میں آیا ہے کہ مدینہ شریف) کے دروازوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں ۔ دہشت گردوں نے اپنی مذموم کارروائیوں کیلئے اُس مقدس شہر میں گھسنے کی کوشش کی جہاں دجال اور طاعون داخل نہ ہوسکیں گے۔دہشتگردوں نے صرف یہی ظلم نہیں کیا کہ نبیﷺ کے شہر میں دہشت گردی کا حملہ کیا بلکہ اُس سے بھی بڑھ کر ظلم یہ کیا کہ نبی کریم ﷺ کے گھر کے دروازے پر وہاں حملہ کیا، جہاں نگاہیں بھی نیچی رکھی جاتیں ہیں۔ دہشتگردوں نے قدرے مشرق کی جانب جھکی ہوئی سرتاپا نور عمارت کی لطیف فضا اور جمیل منظر کے سامنے دھماکہ کیا۔مکروہ دہشت گردوں نے گنبدوں سے ڈھکے ، سنگ مرمر سے مزین اور سونے کی پچی والے محرابوں پر قائم مسجد نبوی ﷺمیں اُس جگہ دھماکہ کیا جہاں آواز تک دھیمی رکھی جاتی ہے۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر شریف اور روضہ شریف کے درمیان وہ جگہ بھی ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی کیاروں میں سے ایک کیاری بتلایا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ سارا ٹکڑا جنت میں رکھا جائیگا۔
557ھ میں عیسائیوں کے ساتھ صلیبی جنگ جاری تھی کہ ایک شب سلطان نورالدین زنگی شہیدؒنے خواب دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسم دو گربہ چشم آدمیوں کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں : ’’انجدنی و انقذنی من ہذین‘‘ ۔ خواب دیکھتے ہی چونک کر سلطا ن کی آنکھ کھل گئی۔ سلطان نے فوراً تیز رو سانڈنیاں منگا کر چند ہمراہی ساتھ لیے، نہ دن دیکھا نہ رات اور رواں دواں سولہ دن میں مصر سے مدینہ پہنچ گئے۔ سلطان نے مدینہ میں موجود تمام بیرونی باشندوں کی دعوت کی اوراُن پر ایک گہری نگاہ ڈالی مگر وہ دو شخص نظر نہ آئے جو خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے پوچھا ’’کیا اور کوئی بھی باقی ہیں؟‘‘تو معلوم ہوا کہ دو مغربی درویش گوشہ نشین باقی رہ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ بلوائے گئے تو ان کو دیکھتے ہیں سلطان نے پہچان لیا کہ اِنہی دو کی طرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا۔ ان کو ساتھ لے کر سلطان ان کی قیام گاہ پر آیا، دیکھا کہ ادھر ادھر چند کتابیں پڑی ہوئی ہیں زمین پر ایک معمولی ٹاٹ پڑا اور اس پر مصلی بچھا ہوا ہے اور چند برتن رکھے ہوئے ہیں جن میں کچھ اناج ہے۔ سلطان نے خاموش رہ کر کچھ دیر سوچا کہ خواب کا کیا مقصد ہے؟ دفعتاً قلب میں القا ہونے پر سلطان نے بچھا ہوا ٹاٹ اور مصلیٰ اٹھالیا۔ دیکھا تو اس کے نیچے گڑھا تھا جس پر پتھر رکھا ہوا تھا، پتھر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک سرنگ کھو دی گئی ہے اور وہ سرنگ اندر ہی اندر جسم انور کے قریب پہنچ گئی ہے۔ سرنگ دیکھ کر سلطان رحمتہ اللہ علیہ غصہ سے لرزنے لگے اور سختی سے تفتیش شروع کردی۔ آخر اُن دونوں نے اقرار کیا کہ وہ نصرانی ہیں جو اسلامی وضع میں یہاں آئے تھے اور انکے عیسائی بادشاہ نے جسد محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نکال لانے کیلئے ان کو بھیجا تھا۔ یہ باتیں سن کر سلطان رحمتہ اللہ علیہ کی عجیب کیفیت ہوگئی وہ تھر تھر کانپنے اور رونے لگے۔
قارئین کرام!!سلطان نے دونوں نصرانیوں کو اپنے سامنے قتل کرا دیا اور روضہ رسول ﷺ کے گرد اگرد اتنی گہری خندق کھدوائی کہ پانی نکل آیا ،پھر لاکھوں من سیسہ پگھلوا کر اُس خندق میں ڈالوادیا اور سطح زمین تک سیسہ کی ایک زمین دوز ٹھوس دیوار قائم کردی کہ کسی رخ سے جسد مطہر تک کوئی دشمن رسائی نہ پاسکے۔ نبی کریم ﷺ کے گھر کے دروازے پر دھماکہ کرنے والے بھی کسی طور مسلمان نہیں ہوسکتے!
آقا ہمیں معاف فرمادیں کہ دہشت گرد آپ کے شہر تک ہی نہیں بلکہ آپ کے گھر کے دروازے تک پہنچ گئے ،لیکن ہم میں سے کوئی بھی سلطان نورالدین زنگی شہید جیسا نہیں جو آپ کے دروازے تک پہنچنے والے دہشتگردوں کو رہتی دنیا تک نشان عبرت بناسکے۔ شاید ہم سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دہشت گردوں کے راستے میں ناقابل عبور دیوار تعمیر کرسکے۔ ہمیں معاف فرمادیں آقا! ہم شرمندہ ہیں آقا!