نبی ؐ کا فرمان اورجے آئی ٹی

اُم المومنین حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں: ’’قریش کو مخزومیہ عورت کی حالت نے فکر مند کر دیا جس نے چوری کی تھی۔ وہ کہنے لگے: اسکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون بات کریگا؟ دوسرے صحابہ نے کہا: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے علاوہ یہ جرأت کون کر سکتا ہے؟ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ہے۔ لہٰذا اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی (سفارش کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ تعالیٰ کی سی حد میں سفارش کرتا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطاب فرمایا: ’’تم سے پہلے لوگوں کو اسی بات نے ہلاک کیا: جب کوئی ان کا شریف (بڑا) آدمی چوری کر لیتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور (کم حیثیت) آدمی چوری کر بیٹھتا تھا تو اس پر حد قائم کر دیتے تھے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کر لیتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اْمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے: اس کی بہت اچھی توبہ ہوئی‘ بعد میں اس نے شادی کی۔ اسکے بعد وہ میرے پاس آیا کرتی تھی۔ میں اسکی حاجت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیان کر دیتی تھی۔
آج جب مریم نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہورہی تھی تو مجھے یہ متفقہ علیہ حدیث مبارکہ یاد آگئی کہ آپؐ انصاف اور قانون کی کس طرح پاسداری کیا کرتے تھے، یقینا یہ وہ معاشرہ نہیں جس میں صبر و تحمل، برداشت اور انصاف کی اعلیٰ مثالیں قائم کی جاتیں تھیں ، مگر ہمیں آج سچ کا ساتھ دینا چاہیے اور اپنے تئیں گواہی دینی چاہیے کہ جس کا احتساب کیا جا رہا ہے کیا وہ لائق احتساب نہیں۔ آج حکومتی وزراء آپے سے باہرہو رہے ہیں اور بائونڈری سے نکل نکل کر باتیں کر رہے ہیں ۔ جب ایک شخص نے ملک پر حکومت کرتے ہوئے کھربوں روپے ذاتی حیثیت میں اکٹھے کرکے اپنے بچوں کے نام کر دیے تو کیا اس ملک کے اداروں کا یہ فرض نہیں کہ وہ پوچھ سکیں کہ پیسا کہاں سے آیا؟ اور اگر مریم نواز یا حسین و حسن نواز جو یقینا سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے۔ انہیں تحفے تحائف میں ملین ڈالرز کی جائیدادیں ملیں تو وہ اس کے کاغذات دکھا دیں اور ساری زندگی کے لیے ایک سرٹیفکیٹ لیں اور سرخرو ہوجائیں لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ جب ادارے اپنا فرض ادا کر رہے ہوں تو بیک سٹیج سیاست شروع کر دی جائے کہ خاتون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیوں کیا جا رہا ہے۔ خواتین کی عزت سر آنکھوں پر مگر جب قوم یہ دیکھتی ہے کہ مریم نواز ایک عام شہری کی حیثیت سے جے آئی ٹی میں پیش ہونے جاتی ہے تو ایک خاتون پولیس آفیسر انہیں کس طرح سیلوٹ کر رہی ہوتی ہے۔اُن کا پروٹوکول کسی سیاسی لیڈر یا کسی بڑے افسرسے کم ہر گز نہیں تھا اور ان مناظر کو دنیا نے بھی دیکھا ۔ بہرحال مریم نواز کی مختصرپیشی کے بعد اُن کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس پہلی لیکس نہیں جس میں انہیں شامل کیا گیا، نیوزلیکس میں بھی انہیں ملوث کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم میں ان کا نام نہیں ہے، جے آئی ٹی نے جو پوچھا اس کا جواب دیدیا، جس کے بعد انہوں نے جے آئی ٹی سے پوچھا کہ ہم پرالزام کیا ہے، جس کا جو اب انہوں نے نہیں دیا۔ان کا مزید کہنا تھاکہ جے آئی ٹی کے سوالات 60، 70اور 80کی دہائی میں ہمارے خاندانی کاروبار کے گرد گھوم رہے ہیں، سرکاری پیسے سے متعلق سوال تو بنتا ہے مگر ذاتی کاروبار پر کوئی سوال نہیں بنتے۔اس مذکورہ پیشی کے بعد ایک بار پھر پریس کانفرنسز اور ٹویٹس کا مقابلہ چل نکلا اور دوبارہ سیاست شروع ہوگئی۔ خیر میں یہ نہیں کہتا کہ مریم نواز جے آئی ٹی سے اپنے والد کی طرح سوال پوچھنے کی حق بجانب تھیں بھی یا نہیں ؟ لیکن ان کے سوال کے بعد جے آئی ٹی کے کیا تاثرات ہوں گے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں ۔ یقینا ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ضرور پھیل گئی ہوگی۔
اور ویسے بھی جب حکومت کی طرف سے یہ برملا کہا جا رہا ہے کہ اُن کیخلاف سازش کی جا رہی ہے تو میرے خیال میں حکومت کی طرف سے اس سازش کو اب بے نقاب کرنا چاہیے ، کونسی سازش ہورہی ہے، کس کیخلاف ہورہی ہے؟ موجودہ حالات میں تو سب کو یہی نظر آرہا ہے کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس دونوں میرٹ پر قائم ہیں اور اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے اگر نواز شریف نے کچھ کیا ہے تو وہ اب کے بار نہیں بچ سکیں گے۔اگر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ موجودہ وزیراعظم کے خلاف کوئی امریکی سازش کارفرما ہے تو وہ غلط ہے۔ اُنکی حکومت کوغیر مستحکم کرنے کیلئے اُن کیخلاف غیرملکی فنڈز نہیں آرہے۔ کسی غیرملکی سفارت خانے کے اہلکار اُنکی حکومت کو توڑنے کی سازش میں ملوث نہیں۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اب کی بار شاید کوئی جنرل جہانگیر کرامت نہیں بن سکے گا اور نہ ہی کوئی جسٹس سجادعلی شاہ موجود ہے ۔ نہ ہی اب کوئی خریدو وفروخت کا کاروبار ہوگا ہے اور نہ ہی کوئی این آر او ہونیوالا ہے۔ اور اللہ نہ کرے اگر کچھ ایسا ہوگیا تو بادی النظر میں قوم دوبارہ پستیوں اور مایوسیوں کی اتھاہ گہرایوں میں گم ہوجائیگی۔ بقول شاعر …؎
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا
اب کی بار کیا کچھ جاتا ہے ’جی‘ کے ساتھ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر آج جے آئی ٹی اپنے آخری مراحل میں پیش پیش نظر آرہی ہے۔ تفتیش قریب قریب مکمل ہو چکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بینک سے شریف خاندان کی تمام کمپنیوں کا ریکارڈ بھی حاصل کرلیا ہے، جے آئی ٹی کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو خط لکھا گیا ہے جس میں شریف خاندان کے بارے میں 19 کمپنیوں کی تفصیلات مانگی گئی تھیںوہ بھی حاصل ہوچکی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق جے آئی ٹی کی جانب سے جن کمپنیوں کے بارے ریکارڈ مانگا گیا تھا ان میں اتفاق فائونڈریز لمیٹڈ، رمضان شوگر ملز لمیٹڈ، حسیب وقاص شوگر ملز لمیٹڈ، مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز، رمضان بخش ٹیکسٹائل ملز، برادرز شوگر ملز لمیٹڈ، چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ، اتفاق شوگر ملز لمیٹڈ، اتفاق برادرز لمیٹد، صندل بار ٹیکسٹائل ملز لمیٹد، خالد سراج ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ، حدیبیہ انجینئیرنگ کمپنی لمیٹڈ، برادرز ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ، اتفاق ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ، برادرز اسٹیل ملز لمیٹڈ، حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ، الیاس انٹرپرائزز لمیٹڈ اور اتفاق اسپتال ٹرسٹ شامل ہیں اُن کی بھی 90فیصد تفصیلات مل چکی ہیں۔حالانکہ ان میں سے بہت سی کمپنیاں میاں شریف کے بچوں کے نام ہی نہیں ہیںجب کہ بعض کمپنیوں میں شریف خاندان کے لوگوں کے شیئرز ہیں اور پوری کمپنی کے مالک نہیں۔ اس سے قبل جے آئی ٹی شریف خاندان کے بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے بھی تمام ریکارڈ منگواچکی ہے۔مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تمام ریکارڈ کو کس انداز میں مرتب کر کے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جا تا ہے اور سپریم کورٹ کس نتیجے پر پہنچتی ہے ۔
میرے خیال میں آج اگر یہ تمام ریکارڈ ایک جگہ اکٹھا ہوگیا ہے تو یہ کسی اور کی مرہون منت نہیں بلکہ اس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے جو پاکستان کے طاقتور ترین لیڈرز کا احتساب کروانے میں کامیاب ہوا اور مسلم لیگ ن کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ اب انکے مقابلے میں اصل اپوزیشن تحریک انصاف کی صورت میں کھڑی ہوگئی ہے اس لیے اب غلطی کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔بہرکیف اب جبکہ آخری پیشیاں چل رہی ہیں ۔10جولائی کو جے آئی ٹی اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر نیوالی ہے لہٰذااللہ سے ایک ہی دعا ہے کہ اب انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ آئین اور قانون پر ایسے عمل ہو کہ مچھلی پکڑ نے کا تاثر زائل ہو جائے۔حیلے بہانے نظام کوآڑے ہاتھوں لینے کی افواہیں بھی دم توڑ جائیں۔ اور ملک کے اصل مسائل کی طرف حکمرانوں کی توجہ ہو جائے جس کے منتظر عوام آج جہالت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں آپؐ کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے(آمین)

ای پیپر دی نیشن