ہم غریب عوام اپنے کان ان آوازوں پر دھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ چند دن کی بات ہے، تھوڑے دن ٹھہر جائیں، دیکھیں ملک میں کیسی تبدیلیاں آتی ہیں۔ فلک ہم پر مہربان ہونے ہی والا ہے۔ ملک سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا اہتمام ہوا ہی چاہتا ہے۔ ہمارے کان بس ان آوازوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمیں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ نعرے ایجاد کرنے والوں اور خواب دکھانے والوں نے ہمارے دائیں جانب سونے کے ڈھیر لگا دیئے ہیں اور بائیں جانب چاندی کے۔ کبھی کبھار ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی انعامی پروگرام میں بیٹھے ہیں اور ہماری جانب دھڑا دھڑ موٹر سائیکلیں، گاڑیاں، موبائل اور دیگر بیش قیمت انعامات اچھالے جا رہے ہیں۔ ہم کبھی کبھار اپنی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں۔ واہ رے غریب عوام، ہمارا دل کتنا نرم ہے۔ ہم کتنے سادہ ہیں۔ ہم نعروں اور وعدوں سے بہلتے ہیں۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ چند دن میں ہمارا بیڑہ پار ہو جائے گا۔ کرپشن کے گُردے فیل ہو چکے ہیں، دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ بس اب تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر حضرات کرپشن کے لواحقین سے سرٹیفکیٹ پر دستخط کروا لیں گے اور یہ مریض وینٹی لیٹر پر چلا جائے گا۔ بس پھر پورے ملک کی مساجد میں اعلان کروا دیئے جائیں گے کہ عزیزی کرپشن مدتِ مدید سے وطنِ عزیز کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اب اس کا وقتِ رخصت آ گیا ہے۔ یہ عام کرپشن نہیں۔ اس میں بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں۔ اس کی موت کے اعلان کے ساتھ ہی اسے نہلانے کا اعلیٰ بندوبست کیا جائے گا۔ کرپشن کی میت کو مُشک و گلاب میں بسا دیا جائے گا تاکہ فضا میں خوش بو ہی خوش بُو بکھر جائے۔ کرپشن کا کفن بھی بہت قیمتی ہو گا کیوں کہ کرپشن کوئی غریب قلاش تھوڑی تھی۔ یہ جنازہ کوئی عام جنازہ نہیں ہو گا۔ معمولی کرپشن کا جنازہ ہو تو محلے کے چار بندے بھی اسے کندھا دینے گھر سے نہیں نکلتے۔ یہ کرپشن کی وہیل مچھلی کا جنازہ ہو گا۔ جس طرح کسی عاشق کا جنازہ دھوم سے نکلتا ہے اور معشوق کی گلیوں سے گھوم کے نکلتا ہے۔ اسی طرح کرپشن کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکلے گا۔ کرپشن کو نہلا دھلا کر کفن پہنا کر آخری دیدار کے لیے ملک کے کسی بڑے اسٹیڈیم میں رکھ دیا جائے گا تاکہ عوام اپنے ملک سے کرپشن کو ہمیشہ کے لئے رخصت ہوتے دیکھ سکیں۔ کرپشن کے جنازے میں شریک عوام اپنے دائیں بائیں روشنی دیکھیں گے۔ آسمان سے روشنیاں اتر رہی ہوں گی اور زمین ان روشنیوں میں بقعہ نور بن جائے گی۔ جنازے میں شریک غریب عوام یہ گواہی دیں گے۔ ہم نہ کہتے تھے کہ ہمارے ملک میں اس کرپشن کی وجہ سے بے برکتی ہو چکی ہے۔ روشنی کو اندھیرا چاٹ چکا ہے اور تاریکیوں نے ہمیں چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ لو جی مساجد سے اعلان شروع ہوچکے ہیں۔ کرپشن نے آخری ہچکی لے لی ہے۔ جنازے میں شریک ہونے والوں سے التماس کی جارہی ہے کہ جنازے میں چوںکہ ملک کے طول و عرض سے لوگ آرہے ہیں، اس لئے وضو گھر سے کرکے آئیں۔ جنازہ گاہ کی ٹونٹیاں اتنی بڑی تعداد کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ ہمارے غریب عوام کی زندگی بھی عجیب ہے، ہماری زندگیوں میں حادثات اور دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت کرپشن کے ایشو نے غریب عوام کے ذہنوں میں ہوائی جہازوں کے بڑے بڑے انجن فٹ کردیئے ہیں۔ ہماری ذہنی پروازیں کے ٹو اور نانگاپربت کی چوٹیوں سے بھی زیندہ بلندیوں پر ہیں۔ ہم کرپشن کے انڈوں میں سے اپنے اپنے متوقع چوزے نکال رہے ہیں اور یہ چوزے وطن عزیز کے ہر گلی محلے میں چوںچوں کی آوازیں بھی بلند کررہے ہیں۔ متعدد مرتبہ ہماری توقعات آخری حدوں تک بڑھائی جاتی رہی ہیں۔ گزشتہ دورِ حکومت میں لوگوں کی توقعات سوس بینکوں تک لے جائی گئی تھیں۔ غریب عوام ایک خط پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ پھر کیا ہوا ایک وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا، باقی جوں کا توں رہا۔ ہمارے بے چارے عوام گرتے پڑتے اپنے اپنے کاموں پر جاتے ہیں۔ اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے روکھی سوکھی کماتے ہیں اور بعض لوگوں کو تو روکھی سوکھی کمانے کے لئے نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور جو روکھی سوکھی نہیں کما سکتے، وہ اپنے بال بچوں کا گلا گھونٹ کر خودکشی کرلیتے ہیں۔ بہرحال اس لاچار و مجبور عوام کی قسمت میں آج تک کسی نہ کسی حکمران کا کیس ہی آیا ہے۔ اپنی روزی روٹی کمانے کی خاطر وہ ہلکان ہوتے ہی ہیں۔ حکمرانوں کے کیسوں کی روداد ان کے اذہان پر اضافی بار ثابت ہوتا ہے۔ حکمرانوں پر کیس چل رہے ہوں تو عوام یونہی اکڑ کر چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس طرح افیون کھانے والے اس کے نشے کے بغیر نہیں رہ سکتے، شاید ہمارے عوام کو بھی ایک نشہ سا ہے۔ بعض لوگ پانامہ کیس کی سریلی آبشاروں کی آوازوں میں اتنے مست ہیں کہ انہیں اپنے گردو پیش کی خبر ہی نہیں۔ کبھی کبھی انسان حالت خواب میں اپنی تکلیف دہ زندگی سے نکل کر ایسی ایسی جگہوں کی سیر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ زندگی کتنی حسین ہے۔ صبح اٹھ کر وہ پھر کبیرے کی طرح زندگی کے دو پاٹن کے بیچ پھر پسنا شروع ہوجاتا ہے۔ خبر نہیں کہ مستقبل میں عوام کے حصے میں سونا، چاندی، ہیرے اور جواہرات آئیں گے یعنی ان کے دن پھر جائیں گے یا پہلے ہی کی طرح اخبارات کے ضمیمے، ٹی وی چینلز پر تبصرے اور تجزیے اور دو وقت کی روٹی کمانے کی فکر۔