بھارتی وزیراعظم مودی کو خوش کرنے کے لیے فریڈم فائٹر سید صلاح الدین کو دہشت گرد قراردینے پر دنیا بھر سے کشمیریوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے مقبوضہ کشمیرمیں کرفیو اور دیگر پابندیوں کے باوجود لوگوں نے زبردست بھارت مخالف مظاہرے کیے جبکہ بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق مظاہروں کی کال متحدہ حریت قیادت اور متحدہ جہاد کونسل نے پوری وادی کشمیرمیں بھارتی پولیس اور فوجیوں کی طرف سے حریت رہنماﺅں ،کارکنوں اورنوجوانوں کے خلاف غیر قانونی اور جبری کریک ڈان اور گرفتاریوں کی تازہ لہر کیخلاف احتجاج کیلیے دی تھی۔مظاہروں کا مقصد امریکی انتظامیہ کی طرف سے بھارتی حکومت کو خوش کرنے کیلیے حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو بلا جواز طور پر دہشت گرد قرار دینے کے اقدام کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا بھی تھا۔ قابض انتظامیہ نے سری نگر اور دیگر علاقوں میں لوگوں کو احتجاجی مظاہرے روکنے کیلیے کرفیو اور دیگر پابندیاں عائد کردیں۔ مودی ٹرمپ ملاقات اور سید صلاح الدین کے حوالے سے فیصلے کے بعد مظفرآباد آزاد کشمیر میں سید صلاح الدین کا زبردست استقبال کیا گیا میڈیا سے گفتگو میں حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور چیرمین متحدہ جہاد کونسل سید صلاح الدین نے اپنا تفصیلی ردعمل دیا ہے کہتے ہیں امریکہ نے مجھے عالمی دہشت قرار دے کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے ، عالمی دہشت گردوں کے حوالے سے کوئی بھی شرط پوری نہیں کی گئی، امریکہ کو فریڈم فائٹر اور دہشت گرد میں فرق کرنا ہوگا، ٹرمپ مودی ساز باز سے تحریک آزادی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بغیر کسی وجہ اور بنیاد کے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو 'خوش اور مطمئن' کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ احمقانہ اقدام اٹھایا ۔جنگیں جرات اور بہادری سے لڑی جاتی ہیں، جس میں آپ پتھر کو بھی ایک ایٹم بم کی طرح استعمال کرتے ہیں۔سید صلاح الدین نے انہیں امریکا کی جانب سے خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد قرار دیئے جانے کے اقدامات پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری دنیا کی پرامن ترین قوم ہے، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنا ٹرمپ کے خبث باطن کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکی قوانین بھی ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتے اور یہ کسی کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی کسی ایک شرط پر بھی پورا نہیں اترتا۔ سید صلاح الدین نے امریکہ کے بھارت کی جانب جھکا کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دیں ، ہزاروں پاکستانیوں کی جانیں اس جنگ کی بھینٹ چڑھیں، ملک کی معیشت کو110ارب ڈالر کا نقصان اس جنگ کی وجہ سے ہوا مگر ان سب قربانیوں کی قدر کرنے کی بجائے امریکہ کا بھارت کی جانب جھکا اور پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ ناقابل فہم ہے۔سید صلاح الدین نے حقائق کی نشاندہی کی اس کا اظہار پاکستان کی طرف سے بھی اسی شدومد سے سامنے آنا چاہیئے تھا نہیں آیا البتہ وزیراعظم پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لینے کا ضرور خیال آیا ہے ،،وزارت خارجہ میں ایک اجلاس بلایا گیا ایسا نہیں ہوا کہ قومی اسمبلی کی کشمیرکمیٹی کے چئیرمین صاحب کو بھی بلالیا جاتا مگر مودی ٹرمپ ملاقات کے حوالے سے ضرور بات ہوئی ،،،مشیر خارجہ سرتاج عزیز، سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی، تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز اور سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نےعالمی معاملات پر بریفنگ دی اور اجلاس میں کئی اہم فیصلے کئے گئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی کو مایوس کن قرار دیا ہے۔ اجلاس میں سعودی عرب قطر تعلقات اور خیلج میں کشیدگی سمیت بھارت افغانستان سے تعلقات پر تفصیلی غور کیا گیا اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کے لیے پرامن ہمسائیگی کے اصول پر کاربند رہے گا اور خلیج میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے مفاہمتی کوششیں جاری رکھے گا۔ اس کے علاوہ افغان سرزمین پر قیام امن کے لیے چین کی مصالحتی کاوشوں کا خیر مقدم بھی کیا گیا۔ وزیر اعظم نے امریکا بھارت مشترکہ اعلامیے میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی کو مایوس کن قرار دیا اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کے فوری حل کے لیے سفارتکاری کے عمل کو مزید متحرک کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے خطے میں بدلتی صورتحال پر وزارت خارجہ کو نئی گائیڈ لائن بھی دی جبکہ چین کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری، سی پیک، امریکا سے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کی بحالی اور روس سے مضبوط تعلقات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اگرچہ وزیراعظم صاحب کی اس کوشش کو گفتن نشستن برخاستن تک ہی محدود کہا جاسکتا ہے ،،غیرملکی انحصار کم کرنے کی بات بھی شائد بات کی حد تک ہی ہے البتہ مثبت بات ہے اللہ کرے یہ صرف بات ہی نہ رہے ،کچھ عمل بھی ہوپائے ہونا تو یہ چائیے تھا کہ کم ازکم ٹرمپ کی صدارت تک ہی سہی اپنی بقا کیلئے چین روس ،ترکی اور اسلامی ممالک کو ساتھ جس حد تک بھی ممکن ہو اییک مضبوط پریشر گروپ تشکیل دینے کا آغاز کیا جاتا ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں ارباب اختیار کچھ کربھی رہے ہوں مگر اب اگر کچھ کیا جارہا ہے تو اس میں تیزی آنی چائیے سید صلاح الدین کے حوالے سے جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس کے خدشات بے لگام جہادی کلچر کی افغانستان سے واپسی کے بعد امکانات تھے بھارت اس کوشش میں تھا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جائے جو مودی کسی حد تک کامیاب ہوا ہے مگر ساری دنیا ٹرمپ جیسے خیالات کی حامل نہیں یورپی یونین کشمیریوں کے حق خوداردیت کی حامی ہے اس ضمن میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے برطانوی ایوان میں اور امریکہ میں موجود کشمیری النسل ارکان پارلیمنٹ کو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کشمیر کمیٹی اور دفترخارجہ کو عملی طور پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کیلئے ذ مہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا سب سے اہم کردار کشمیریوں کا خود اپنا ہوگا جو دنیا بھر میں موجود ہیں کہ وہ کشمیر کی آزادی کے ایک نکتے پر متحد ہوجائیں یہ بات دنیا کو بتائی جائے کہ کشمیری فریڈم فائٹر دہشت گردنہیں ،،بھارت کے وزیراعظم نے جس معاملے کو چھیڑا ہے اگر پاکستان نے اپنے پتے درست طریقے سے کھیلے تو بھارت کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے بھارت کی دبی ہوئی تحریکیں بھی بھارت کا شیرازہ بکھیر سکتی ہیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے کھیل کو ایک جانب رکھ کر کشمیریوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔