پانی وبجلی کی کمی اہم ملکی مسائل میں سرفہرست ہے۔ قلت آب عالمگیر مسئلہ ہے کہاجاتا ہے کہ دنیا کی مجموعی آبادی 2040ء میں 9ارب تک پہنچ جائیگی ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020ء میں دنیا کو اس کی موجودہ ضرورتوں کے مقابلے میں 50فیصد زائدخوراک 45فیصد زائد توانائی اور 30فیصد اضافی پانی درکار ہوگا۔ اقوام متحدہ ہی کی ایک اوررپورٹ میں مذکور تھا کہ پاکستان قلت آب کے شکار17ممالک میں شامل ہے1947ء میں جب ہم آزاد ہوئے ہر شہری کیلئے 5ہزار6سو کیوبک میٹرپانی موجود تھا جو اب کم ہوکر ایک ہزار کیوبک سے بھی کم رہ گیا ہے اور2025 ء تک آبادی کی بڑھتی ہوئی رفتار کے باعث 8سوکیوبک میٹر رہ جائے گا ۔
چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پرپہلے سے موجود آبی ذخائر کی گنجائش بڑھانے کی اسکیموں کو مکمل کرنے کیلئے چین نے 70کروڑ ڈالرقرض کی فراہمی پرآمادگی ظاہر کی تھی یہ رقم کم شرح سود پر پاکستان کوملنی تھی اس منصوبے میں سندھ کے ضلع دادو کا نیئں گاج ڈیم بھی شامل ہے جو سندھ وبلوچستان کی کوہستانی پٹی سے بارش کے ایام میں بہہ نکلنے والے پانی کو محفوظ کرنے کیلئے تعمیر ہو رہا ہے یہ پانی ضلع دادو کے پسماندہ علاقے کا چھو میں تباہی لاتا ہے نیئں گاج اسکیم کی گنجائش 3 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ہے اس سے 4.4 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور اس پر ایک اندازے کے مطابق نولون ڈیم کے ساتھ ساتھ 70کروڑ ڈالر لاگت آئے گی سندھ میں بھی چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں پر ایک عشرے سے کام ہو رہا ہے ماضی میں کوہستانی علاقے میں 9ڈیموں کی تعمیر زیر غور تھی پھر 1سے 5 اوربعدازاں تین تک محدود کردیا گیا سابق حکومت نے اسکے سوا مزید چھ چھوٹے ڈیموں کی بھی منظوری دی یہ بوڑی‘ فوربی‘ چھوری‘ ککرنائیں ‘ڈھنگ ڈھور و اوربندھائی نامی برساتی ندیوں پر تعمیر ہونے تھے ۔
ڈیموں کی تعمیر پاکستان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے کیونکہ غیرآباد رقبے کی کاشت اورصنعتی عمل کو جاری وساری رکھنے کیلئے یہ دونوں ضرورتیں ناگزیر ہیں مستقبل میں بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے خوراک اورروزگار دونوں کا حصول آبی ذخائر سے مشروط ہے اورچھوٹے آبی ذخائر کو تعمیر کرکے ہم مقامی سطح پر ان ڈیمانڈز کی تکمیل کرسکتے ہیں تاکہ صنعت کا سست پہیہ تیزی سے چل سکے اورغیرآباد کھیت سیراب ہوں توفصلیں لہلہا سکیں۔ چین کے تجربات سے استفادہ اس لئے ضروری ہے کہ وہاں 5ہزار سے زائد چھوٹے ڈیم موجود ہیں دنیا بھرمیں چھوٹے ڈیم ا س لئے تعمیر ہوتے ہیں کہ بارش اورچھوٹے سیلاب کے پانی کو جمع کیاجاسکے۔ خود سندھ میں ایک رپورٹ کے مطابق تھر‘ کوہستان‘ کارونجھر‘ کھیر تھر‘ کاچھو‘ ننگرپارکر‘ سیری میں ایسے مزید2سو ڈیم تعمیر ہوسکتے ہیں جہاں برساتی پانی کو جمع کرکے 8لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کیاجانا ممکن ہے۔
نہری پانی کی کمی کے باعث زیر کاشت رقبے کو بھی پورا پانی میسر نہیں آتا اس لئے کہ بارش کے پانی کا ذخیرہ کرکے زرعی اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ نیس پاک کی 2003ء میں رپورٹ تھی کہ گزشتہ نصف صدی میں ملک بھر میں بارشوں کے ذریعے ایک ارب ایکڑ فٹ پانی حاصل ہوکر ضائع گیا جس کی مجموعی اوسط حالت اس وقت کے کرنسی ریٹ کے مطابق 3کھرب روپے بنتی تھی۔
سکھر بیراج کی تعمیر انگریزوں کا فوری فیصلہ نہ تھا۔ انہوں نے جگہ کا تعین کرنے کیلئے برسوں اسٹڈی کرائی تھی جس کے بعد یہ مقام تجویز ہوا تھا۔ گزشتہ برسوں میں 12 لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلہ گزرنے کے باوجود بیراج کے 82 برس قدیم انفراسٹرکچر کو کچھ نہیں ہوا اور یہ اس کی مضبوطی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ماہرین آبپاشی کا مشورہ تھا کہ نئے بیراج کی تعمیر میں وقت لگے گا اور ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔ اس لئے نئے منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرائی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ موجودہ بیراج کی بحالی اور بہتری کا کام بھی کسی تاخیر کے بغیر شروع کردیا جائے اور بین الاقوامی ماہرین سے بھی مشاورت کرلی جائے۔ بالخصوص دریائے سندھ کے باقی بیراج پر بند پڑے۔ 10 دروازوںکوکھولنے کی تجویز بھی زیر غور لائی جائے
پانی کاضیاع ڈیم تعمیر کرکے ہی روکاجاسکتا ہے تاکہ خشک سالی کے ایام میں ملکی زراعت اورآبادی کو مشکلات سے بچایاجاسکے۔ اس کیلئے موثر حکمت عملی اورٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ایک طرف بھارت کی آبی جارحیت ہے تو دوسری سمت ہماری ناقص پالیسیاں‘ کیا حکومت آبی ذخائر میں کمی اورغذائی قلت کے خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی پیش بندی کرے گی؟ یہ آج کے حالات میںاہم سوال ہے۔ پاکستانی زرعی ملک ہے اسے قدرت نے چاروں موسموں‘ آبی وسائل اورزرخیز اراضی سے نوازا تھا لیکن ہماری ناقص پالیسیوں اورقو می مفادات سے عدم دلچسپی نے آج اس مقام پر پہنچادیا ہے کہ پانی کی کمی کے باعث ایک رپورٹ کے مطابق اس برس فصلوں کی بوائی متاثرہوئی ہے اسکی کئی وجوہات ہیں ایک یہ کہ ملک میں تربیلا اورمنگلا کے بعد کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہوا دوسرے زراعت کیلئے مطلوبہ پانی کی مقدار ہربرس کم ہوتی رہی جو ایک اندازے کے مطابق 17فیصد سالانہ ہے ایک طرف منگلا ‘تربیلا اورچشمہ میں مٹی یا سلٹ کے جمع ہونے سے ان میں ذخیرہ آب کی استعداد گھٹی ہے تو دوسری سمت آبادی بڑھنے کی وجہ سے پانی کی کھپت اوراستعمال میں اضافہ ہوا نتیجتاً پانی کا بحران شدت اختیارکرچکا ہے۔