جولائی میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ الیکشن تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ حالیہ الیکشن سے قبل ہم جس ”تبدیلی“ کا نعرہ سُن رہے تھے کیا حالیہ الیکشن کے بعد واقعی ہی ”تبدیلی“ نظر آئے گی یا پھر پہلے کی طرح ہی سب ہوتا رہے گا۔ (ن) لیگ اور PPP تو قوم کے لئے آزمودہ ہیں۔ فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ آزمائے ہوئے کو باربار آزمانا بے وقوفی ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستانی قوم ان دونوں پارٹیوں کو کئی بار آزما کر بے وقوفی کا عملی مظاہرہ تو کر چکی ہے جس کا خمیازہ بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ (ن) لیگ کرپشن کے مقدمات کی زد میں ہے۔ PPP کے ”کارنامے“ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ بلاول زرداری کے بارے خیال تھا کہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ سنجیدہ سوچ کا حامل ہوگا مگر وہی الزام تراشیاں اور گندی زبان کا استعمال جو ہماری سیاسی جماعتوں کی ”وراثت“ ہے۔ بلاول زرداری اور آصف علی زرداری کو اب عملی طور پر کچھ کر کے دکھانا ہوگا۔ عام لوگوں کی رائے میں PPP محترمہ بے نظیر کی شہادت کے ساتھ ہی ختم ہوگئی تھی بہرحال تبدیلی کا نعرہ PTI نے لگایا تھا۔ عمران خاں 21 سال سے ایک ہی راگ الاپ رہے تھے کہ ہم یوتھ نوجوان نسل کو آگے لے کر آئیں گے۔ موروثی سیاست کا خاتمہ کریں گے پہلے باپ پھر بیٹا ہم اس کلچر کا خاتمہ کریں گے۔ اقرباءپروری کے خلاف عمران خان اکثر بولتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان الیکشن سے قبل ایسا کر پائے ہیں یا یہ بھی تبدیلی کا ایک خواب ہی تھا۔ جس طرح مینڈک برسات کے موسم میں باہر نکل آتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے سیاستدان بھی اقتدار میں پہلے حکومتی پارٹی کے ساتھ رہ کر مزے لوٹتے ہیں اور مذکورہ پارٹی کے اقتدار کا سورج غروب ہونے لگتا ہے تو آئندہ ممکنہ جیتنے والی پارٹی کا رُخ کر لیتے ہیں اور نئی پارٹی میں شامل ہو کر پہلی اپنی پارٹی کے عیب ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ موجودہ الیکشن میں بھی یہی سب کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پہلے جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر کئی (ن) لیگ کے اراکین PTI میں شامل ہو گئے PTI نے یوتھ لیگ کے نعرے کو پس پشت ڈال کر اُنہیں گلے لگا لیا۔ پھر PPP (ن) لیگ وغیرہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے جو بھی آیا PTI نے آنکھیں بند کر کے اُسے قبول کر لیا۔ ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ وہ ”تبدیلی“ کہاں گئی؟ چودھری نثار پہلے ہی (ن) لیگ کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ زعیم قادری بھی ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے خفا ہیں اور آزادانہ طور پر الیکشن لڑنے کا کہہ چکے ہیں۔ کہنے کو تو یہ سب ”جمہوری“ پارٹیاں ہیں مگر ان پارٹیوں کے اندر جمہوری روئیے مفقود ہیں۔ اپنے اپنے قائد کا فیصلہ ماننا سب پر لازم ہوتا ہے۔ PTI نے ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے صرف ایک طریقہ کار کو مدِ نظر رکھا کہ آئندہ ہر حال میں حکومت ہماری بننی چاہیے یوتھ کے نعرے کو تو ہوا میں اُڑا دیا گیا۔ یہاں تک کہ پارٹی کے پُرانے ورکروں کو نظر انداز کر کے پارٹی میں شامل ہونے والے نئے لوٹوں کو ٹکٹ دئیے گئے۔ عمران خان کا نعرہ موروثی سیاست کے خاتمے والا بھی فلاپ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ PTI نے خود ہی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے سابق وزیراعلیٰ جس کو عمران خان درویش کہتے ہیں اُن کے قریبی عزیزوں کو ٹکٹ دئیے گئے شاہ محمود قریشی نے اپنے خاندان کے لئے ٹکٹ لئے۔ میرٹ کو نظر انداز کیا گیا۔ یہی حال عورتوں کی مخصوص نشستوں کا ہے۔ اقرباءپروری کو فروغ دیا گیا۔ (ن) لیگ نے تو عورتوں کی مخصوص سیٹوں پر کسی غیر کو آنے ہی نہیں دیا صرف (ن) لیگیوں کی بیٹوں، بیویوں، بھانجیوں کو ٹکٹ دئیے گئے۔ یہی حال PPP کا ہے۔ ہر حکومتی پارٹی میں رہ کر مزے لینے والے نفاذ شریعت کے ”دعویدار“ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اپنے عزیزوں کو ٹکٹ دلوائے۔ اب سوال یہ ہے کہ 71 سال سے عوام کے ساتھ جو ظلم ہو رہے ہیں۔ عوام بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں۔ ان لُٹیروں کے اثاثے دیکھ کر عوام توبہ توبہ کرنے پر مجبور ہیں۔ کیا حالیہ الیکشن کے بعد کچھ تبدیلی رونما ہوگی یا ویسے کا ویسا ہی رہے گا۔ ہم تو پُر اُمید نہیں ہیں بہرحال آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔