پٹرولیم قیمتوں میں یکم جولائی کو مالی سال 20-21 کے آغاز سے قبل ہی ریکارڈ اضافہ سامنے آ گیا۔ پٹرول 100.10 روپے فی لیٹر ہو گیا۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا سستا پٹرول دینے سے انکار پر وفاق نے سرینڈر کر دیا۔ بظاہر سرکار ہر مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کی جا رہی ہے۔ دوا ساز ادارے بھی مافیا ہیں ۔ خریداری کے نام پر منافع باہر بھیج دیتے ہیں۔ حکومت کچھ نہیں کرتی۔ آئل کمپنیوں پر 6 کروڑ کا جرمانہ کر کے 7 ارب کا فائدہ پہنچا دیا گیا۔ کراچی میں لوڈشیڈنگ کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں۔ پیٹرول سستا کروا کر ذخیرہ کروایا گیا، مہنگا کر کے مافیا کو فائدہ پہنچایا گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کمی کے بعد 16 ارب 73 کروڑ ڈالررہ گئے ہیں۔ مخالفین اسی گھات میں بیٹھے ہیں کہ پاکستان کو سچ مچ ریاست مدینہ نہ بنا دے۔ پچاس لاکھ گھر نہ بنا دے۔ کروڑوں نوکریاں نہ دے دے ۔ باہر کے بینکوں میں پڑے ۔ اربوں ڈالر واپس نہ لے آئے۔ احتساب کا دور دورہ نہ ہو جائے، بجلی موجود پھر لوڈشیڈنگ کیوں؟ اس وقت ملکی معیشت پاور سیکٹر کے 1 اعشاریہ 9 کھرب روپے کے گردشی قرضوں تلے دبی ہے جس کی عدم ادائیگی کا نتیجہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ بجلی کے شعبے میں کرپشن اور بدنظمی عروج پر ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ناکارہ ٹرانسفارمرز اور ریلوے کے زنگ آلود ڈبوں کا ڈھیر لگا ہے۔ ریلوے اوقاف اور متروکہ وقف املاک بورڈ کی لاتعداد اراضی پر قبضہ ہے۔ گورننس اور معیشت کی سمت ہی درست نہیں۔ مالی سال 2020 ء کے 11 ماہ میں حکومت نے 7.5 ارب ڈالر کا قرضہ لیا ۔ یہ قرضہ ایشیائی بنک ورلڈ بنک اسلامی بنک سعودی عرب اور چین سے لیا گیا۔ موجودہ فنکاروں سے کوئی امید وابستہ نہیں ہو سکتی۔ فلسفۂ سیاست ماضی کے حکمرانوںکی ملامت سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہوتا ہے۔ اہم عہدوں پر اِدھر اُدھر سے لائے گئے لوگ براجمان ہیں۔ ترسیلات زر 23 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہیں جس میں تقریباً 50 فیصد خلیجی ممالک سے آتی ہیں جو ہماری برآمدات سے زیادہ ہیں۔ ہمارے ایکسپورٹ آرڈرز فی الحال معطل یا منسوخ کر دئیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے زیادہ تر فیکٹریاں 25 سے 30 فیصد پروڈکشن پر نقصان میں چل رہی ہیں۔ کورونا کے باعث متحدہ عرب امارات میں 13 ہزار، سعودی عرب میں 3 ہزار اور قطر میں 12 سو پاکستانی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی دوستی کا واسطہ دے کر ان بے روزگار پاکستانیوں کی ملازمتیں بحال کرائیں۔ ان کی معاشی شہ رگ پر حملہ تھا لیکن ’’را‘‘ کا یہ منصوبہ ناکام ہوا ’’را‘‘ سٹاک ایکس چینج کو اسلئے نشانہ بنانا چاہتی تھی کہ یہاں چین کی بہت بڑی انوسٹمنٹ ہے ، سیمنٹ کی کھپت بڑھنے لگی ہے۔ کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ کا بزنس بھی سپیڈ پکڑ رہا ہے۔ حکومت کے 160 ، اپوزیشن کے 119 ووٹوں سے بجٹ منظور ہوا۔ مرادعلی شاہ کہتے ہیں اب وفاق کے لئے ٹیکس اکٹھا نہیں کریں گے۔ وہ یہ بتائیں کہ کیا وہ شجر (وفاق) سے کٹ کر اُمیدِ بہار رکھ سکتے ہیں۔ حکومت کے پہلے مالی سال کی آڈٹ رپورٹ میں 40 وفاقی وزارتوں اور محکموں کے فنڈز میں 270 ارب کی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوںکا انکشاف ہوا ہے۔ بدعنوانی کا حل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر سرکاری اداروں کو اخراجات سے روکا جائے۔ ذمہ داروں کے خلاف ریفرنس تیار کئے جائیں۔ سپلیمنٹری گرانٹس جاری نہ کیجائی۔ مشکل ترین حالات کورونا کی طرح کب تک اور سخت فیصلے کب تک ہوتے رہیں گے۔ لگتا ہے ہر ماہ منی بجٹ آیا کرے گا ۔ روپے کی قدر 40 فیصدکم ہو گئی ہے۔ برآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے روپے جدا ہیں، اصل صاحبانِ اختیار اور حکومت ایک پیج پرہیں تو پھر اپوزیشن اور حکومت کھانے کی میز پر بیٹھنے کو بھی تیار نہیں۔ اقتدار، دولت ، شہرت اور عروج اپنے باطن میں ہمیشہ آزمائش لے کر آتے ہیں۔ اقتدار عروج بالادستی اور دوستوں سے محرومی بھی غربت کا نام ہے۔ سٹاک ایکس چینج پر حملے سے ایم کیو ایم لندن، سندھو دیش ریولوشن آرمی اور بلوچ لبریشن کا گٹھ جوڑ سامنے آ گیا۔ ’’را‘‘ ہماری معاشی ترقی کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ ’’را‘‘ ایم کیو ایم لندن سندھ کے شرپسندوں اور بلوچ باغیوں کو افغانستان میںقائم بھارتی مشن میں تربیت فراہم کر رہی ہے۔ لداخ میں چین کے ہاتھوں بیسیوں فوجیوں کی ہلاک اور علاقہ گنوانے کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ڈال کر انڈین عوام کی فرسٹریشن کو کم کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ بجٹ 180 ارکان کی مددسے پاس ہوا جبکہ ایوان میں سادہ اکثریت 172 کی ہے۔ اپوزیشن بجٹ سے پہلے متحد نہ تھی۔ اپوزیشن متحدہو گی تو منظر تبدیل ہو گا مگر سر دست ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
ملک میں افواہ پردازوں اور شوشہ بازوں کی کمی نہیں جیسے مشرکین اور منافقین انبیاء کے ادوار میں بھی بکثرت پائے جاتے تھے۔ آج بھی پہلے سے زیادہ ہیں۔ مائنس ون اپوزیشن کا شوشہ ہے۔ پی آئی اے اور اس کا ہوٹل ڈوب رہا ہے۔ روز ویلٹ ہوٹل کی نج کاری بھی کوئی شوشہ ہے؟ حکومت کا 80 ہزار خالی عہدے ختم کرنے کا فیصلہ بھی شوشہ ہے۔ پنجاب کے سکولوںکالجوںمیںاساتذہ کی ہزاروں اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ عمران دور میں پی پی ایس سی نے لیکچرر شپ کے لئے آج تک کوئی ایڈ نہیں دیا۔ گزشتہ 21 ماہ میںگندم کے آٹے کی قیمتوںمیں 65 فیصد اضافہ ہوا۔ ستمبر 2018 ء سے ابتک 20 کل آٹے کے تھیلے پر 430 روپے اضافہ دیکھا گیا۔ پھر روٹی نان کم وزن کا اور مہنگا کیوںنہ ہوتا؟ گزشتہ سال مہنگائی 8 سال کی بلندترین سطح پررہی۔ ہم گھانا سے مماثلت اس لئے رکھتے ہیں کہ عالمی بنک نے 2008ء میں کہا تھا کہ پاکستانی معیشت 8.3 فیصد کی رفتار سے بھی ترقی کرے تب بھی وہ 2050ء تک معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم کے ممبر ملکوںکی آمدنی کی سطح پر نہیں پہنچ پائے گی۔ اب حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو منفی 0.38 فیصد رہے گی لیکن ماہرین کے نزدیک یہ شرح نمو منفی ایک فیصدرہے گی۔ 2873 ارب روپے صوبوںکو منتقل کرنے کے بعد وفاق کے پاس 2090 ارب روپے رہ جائیں گے جبکہ صرف قرضوں پر سود اور دفاع کی مد میں 4235 ارب کی ضرورت ہو گی چانچہ ترقیاتی اخرجات میں کٹوتیاں کرنے کے باوجود بجٹ خسارہ اہداف سے کہیں زیادہ رہے گا۔ دو سال میں ٹیکسوں کی وصولی ہدف سے 2300 ارب کم رہی۔ 23 ملین بچے سکول نہیں جا رہے جس طرح بجٹ خسارے کا حل اضافی ٹیکس اور قرضے ہیں۔ اسی طر بچوں کو سکول بھیجنے کا حل ڈبل شفٹ ہے۔ یہ نیک نامی ہے کہ یورپی یونین نے پی آئی اے کی یورپ پروازوںپر پابندی لگا دیہے۔ 262 پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہونے کے انکشاف نے ہماری تو لٹیا ڈبو دی۔ اپوزیشن عملاً حکومت کی سہولت کار بن چکی ہے۔ حکومت کو بجٹ پاس کرانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ مشرف کے این آراو سے صرف کرپشن کے مقدمات ہی نہیں قتل اور دہشت گردی کے مقدمات بھی ختم ہوئے تھے۔ مشرف کے این آر او سے آٹھ ہزار سے زائد سیاست دانوں اور بیورو کریٹس نے فائدہ اٹھایا۔ آدھی دنیا میں پی آئی اے پرپابندی اپوزیشن نے نہیں گھر کے بھی دینے لگوائی، پیٹ سے کپڑا اٹھایا اپنے ہی پائلٹس کو برسرِعام ننگا کیا۔ یہ ایسے ہی ہے وزیر تعلیم کہہدے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر ڈاکٹروںکی ڈگریاں جعلی ہیں تو پھر ایسے ڈاکٹروںکو غیر تو کیا اپنے بھی منہ نہیں لگائیں گے۔ اولاد کے عیبوں پر ماں پر دے ڈالتی ہے محلے میں نہیں اُچھالتی۔