ملک مافیاز کے قبضے میں؟؟؟؟؟

آج ہم لینڈ مافیا، میڈیکل مافیا، پیٹرول مافیا، آٹا مافیا اور چینی مافیا پر بات کریں گے۔ کوشش کی جائے گی کہ مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو کی صوبائی خود مختاری کی چیخ و پکار، حکومت کے باتونی، سب سے ناکام وزیر ذو معنی باتوں سے میڈیا کی توجہ تقسیم کرنے، نان ایشوز کو ایشو بنانے کے ماہر شیخ رشید اور مولانا فضل الرحمان کے دکھ پر بھی کچھ ضرور کہا جائے لیکن ہم آغاز عظمیٰ کاردار کی رکنیت والے معاملے سے کریں گے۔
سیاسی حالات بہت خراب ہیں عام آدمی کی زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی اور اس مشکل وقت میں پاکستان تحریکِ انصاف نے عظمی کاردار کی رکنیت منسوخ کر کے بڑا فیصلہ کیا ہے۔ اتنا بڑا اور اہم فیصلہ ہے ہر کوئی عش عش کر رہا ہے۔ شاید عظمی کاردار کو پارٹی سے نکالنا ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ تھا جس پر اتنی سرعت سے فیصلہ ہوا ہے۔ ہمیں عظمی کاردار کی حمایت کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن اس حوالے وہ خاتون انتہائی بدقسمت واقع ہوئی ہیں کہ کال لیک ہو گئی اور ان کے خیالات عام ہو گئے لیکن حقیقت یہ ہے ایسی گفتگو پی ٹی آئی کی محفلوں میں عام ہیں۔ اس جماعت کے اکثر اراکین ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ وہ رپورٹ نہیں ہوتے۔ عظمیٰ کاردار رپورٹ ہوئیں اور ان کے خلاف ایکشن بھی ہوا۔ یہ ایکشن اس سیاسی جماعت میں ہوا ہے جس کے اندر ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وزراء کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کب کیا کر رہے ہیں کہاں کیا بول رہے ہیں، کس جگہ کیا بول رہے ہیں، کراچی میں علی زیدی کے لوٹ مار کے واقعات ہوں یا فیصل واڈا کی جائیدادوں کا کیس ہو، مشیر پیٹرولیم کے بارے ہر گھر میں ایک کہانی ہو، ریلوے کے مسلسل حادثات، یہاں ہر طرف ناکامیاں اور نقصان ہی نقصان ہے۔ اس سے زیادہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کیا ہو گی کہ جنہیں ذمہ داریاں دی گئی ہیں وہ ناکام ہو چکے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو تحریک انصاف میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں ہے وزیراعظم کو یہ سمجھنا ہو گا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں سیاسی جماعتیں قائم رہتی ہیں وہ کچھ اور نہیں تو کم از کم اس سیاسی جماعت کی ساکھ کو ہی بچانے کے لیے کچھ کر لیں۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور ان کی حکومت میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان حالات میں بہتری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کو شکوہ ہے کہ اپوزیشن نے قوت کا اظہار نہیں کیا ورنہ نتائج کچھ اور ہوتے۔ مولانا شاید بھول رہے ہیں کہ اپوزیشن کی بھی کوئی مجبوری ہو سکتی ہے، حزب اختلاف کی جماعتیں مصلحت کا شکار ہوئی ہونگی بالکل ویسے ہی جیسے مولانا خود کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے اور وہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کر سکے اس وقت مولانا کی کیا مجبوری تھی، وہ کیوں شہہ رگ پاکستان کے بارے طاقت میں ہونے کے باوجود قوت کا مظاہرہ کیوں نہ کر سکے۔ اگر مولانا طاقت میں ہونے کے باوجود طاقت کا اظہار نہیں کر سکے تو پھر آج اپوزیشن سے شکوہ کیوں کر رہے ہیں۔ مولانا اپنی ضرورت کے تحت خاموش رہے، اپوزیشن نے اپنی ضرورت کے تحت قوت کا اظہار نہیں کیا۔
بلاول بھٹو زرداری کو صوبائی خود مختاری یا 18 ویں ترمیم کی فکر پڑی ہے۔ بلاول اور ان کے تمام ساتھی جمہوریت کے نام نہاد دعویداروں سے سوال ہے کہ ذرا یہ بتائیں کہ اس عرصے میں مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں دونوں بڑی جماعتوں نے تمام تر وسائل ہونے کے باوجود اگر مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل نہیں کیے اور اپنے فائدے کے لیے اٹھارویں ترمیم کے سب سے اہم اور اس کی روح پر عمل نہیں کیا تو آج دوسری جماعت اپنے خیالات کے مطابق اس میں کوئی تبدیلی کر رہی ہے تو یہ ان کا بھی حق ہے۔ ایسے تو نہیں ہو سکتا کہ جمہوریت کے نام پر مقامی حکومتوں کا گلا گھونٹ دیا جائے اور جمہوریت کا نعرہ بھی لگایا جائے۔ انہی سیاسی رویوں نے جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
اٹھارویں ترمیم اپنی جگہ اہم مسئلہ ہے لیکن دفاع، ریونیو، تعلیم اور صحت اس سے بھی زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ ملک کے ہر شہری کا حق ہے کہ اسے تعلیم، صحت اور جان و مال کے تحفظ کی یکساں سہولیات فراہم کی جائیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب وفاق خود ان سب معاملات کی نگرانی کرے اور ملک میں یکساں سہولیات کو یقینی بنائے۔ دفاع کو مضبوط تر کیا جائے اور تمام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔
شالیمار ایکسپریس پندرہ جولائی سے بند کی جا رہی ہے۔ یقیناً شیخ رشید اس ٹرین کو بند کرنے کا الزام خواجہ سعد رفیق پر عائد کریں گے کیونکہ جتنی تباہی ہو رہی ہے اس کے ذمہ دار سابق وزراء ہیں شیخ رشید تو صرف یہ اطلاع پہنچانے کے لیے وزیر بنے ہیں ریلوے کے معاملات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
مسلسل بحرانوں کے بعد یہ یقین ہو چلا ہے کہ ملک پر مافیاز کا قبضہ ہے اور یہ سارے مافیاز ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان نے مافیاز کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور یہ ان کے منشور کا انتہائی اہم حصہ ہے لیکن وہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ان کے اردگرد کارپوریٹ مافیاز کے نمائندے موجود ہیں۔ اسد عمر ہوں یا خسرو بختیار، ندیم بابر ہوں یا رزاق داؤد وہ مکمل طور پر کارپوریٹ مافیاز کے نمائندوں کی زد میں ہیں۔ ملک میں اس وقت پانچ بڑے مافیاز ہیں۔ سب سے پہلے مینڈ مافیا، میڈیل مافیا، آٹا مافیا، چینی مافیا اور پیٹرول مافیا ان سب کی موجودگی میں عام آدمی کی بھلائی کیسے ممکن ہے۔ اصولی طور پر تو انہی لوگوں کی حکمرانی ہے اور عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔
لینڈ مافیا نے عام آدمی سے چھت بنانے کا خواب چھین لیا ہے۔ لوگوں کی زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں۔ وہ اوور سیز پاکستانیوں کی زمینیں ہوں یا پاکستان میں بسنے والوں کی جائیدادیں ہوں ہر جگہ قبضے جاری ہیں۔ اس عمل میں زمین اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ اچھے بھلے لوگوں کے لیے اپنا گھر خواب بن کر رہ گیا ہے۔
میڈیکل مافیا نے پرائیویٹ ہسپتال تعمیر کر کر کے عام آدمی کے لیے اچھا علاج ایک خواب ہی بنا دیا ہے۔ ادویات اور علاج اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ غریب بے بسی کی موت مر رہا ہے۔ کہیں دوائی نہیں ملتی تو کہیں علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت قابل رحم ہے۔ وہاں کسی کو کچھ مل جائے تو غنیمت ہے۔ کیا عمران خان نہیں جانتے کہ یہ مافیاز کتنے طاقتور ہیں اور ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔
آٹا اور چینی مافیا نے بھی حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ بالخصوص گذشتہ چودہ پندرہ ماہ میں اس حوالے سے جتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے اس نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ یہ فیصلہ سازوں کی غلطی کے باعث ہوا ہے اگر اتنا بڑا اور طویل بحران رہا ہے تو کوئی اسکا ذمہ دار بھی ہو گا۔ آٹا ضرورت کی بنیادی اور اہم ترین اشیاء میں شامل ہے کبھی آٹا نایاب ہوتا ہے تو کبھی اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ چینی دیکھتے ہی دیکھتے پچپن سے نوے روپے فی کلو ہو گئی اس دوران چینی کی قلت بھی ہوئی آخر کار مافیا کی جیت ہوئی، یہی آٹے کے مسئلے پر ہوا وہاں بھی مافیا ہی کامیاب ہوا۔ پھر آتا ہے پیٹرول مافیا چند دن پہلے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے نے ثابت کیا ہے کہ اس معاملے میں بھی حکمران عوام کے لیے سہولت پیدا کرنے میں ناکام رہے اور مافیا نے اپنی بات منوا لی۔ اگر ہر دوسرے مسئلے میں جیت طاقتور کی ہے مافیا کی ہے تو پھر عمران خان کا مافیا کے خلاف لڑنے کا نعرہ اور خواب تو کہیں بہت دور ہی بکھر چکا ہے۔ جنہیں مافیا سے لڑنے کے خواب دکھائے گئے تھے وہ مافیاز کے ہاتھوں یرغمال ہیں نہ کپتان کو سمجھ آ رہی ہے کہ وہ کیا کرے اور نہ ہی اس کے سپورٹرز کو سمجھ آ رہی ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کوئی قومی سلامتی کا دشمن ہے تو کوئی نااہل ہے، کوئی کرپشن کا بادشاہ ہے تو کوئی قوت فیصلہ سے عاری ہے یہ جمہوریت کے تحفے ہیں جو مسلسل مل رہے ہیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر وہ شخص جس نے ملک و قوم کی خدمت کرنے اور حکومت کو عام آدمی کے مسائل حل کرنے اور حقائق بتانے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے اور عوامی مسائل کی نوعیت کو سمجھے بغیر یہ نیک کام کرنے والوں کو حکومت مخالف کا ٹائٹل دے کر نظام سے الگ کر دیا گیا ہے۔ آج ہونے والی تباہی ایسے ہی نہیں ہے جب حکومت نے مسائل کو سمجھا ہی نہیں بہتر راستہ دکھانے والے کو دشمن سمجھا ہے اور مافیاز کو کچلنے کا نعرہ لگا کر بڑے بڑے مافیاز اور کارپوریٹ مافیاز کے نمائندوں کو اہم عہدے دیے گئے ہیں تو تباہی کے سوا کسی چیز کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

ای پیپر دی نیشن