بچپنے کوچھوڑ کر
جب جوانی میں قدم رکھا
شروع میں تتلیوں کے رنگ
پھولوں کی مہک اور خوشبوؤں کے سنگ
یہ سارے نظارے
سمندرکے کنارے
اچھے لگتے تھے
کبھی بارش میں بیٹھے بھیگنا
اور پھرکبھی ایسے میں
جب سورج نکل آئے
تو بچوں کی طرح سے چیخنا
سب کو بلانا
اور خوشی سے جھوم جانا
اور کہنا یہ سب سے
کہ آجاؤ
شفق کے رنگ دیکھو!
پھر شفق کے رنگ غائب ہوگئے اک دم
اندھیرے اور اجالے
زندگی کے ہم سفر بنتے گئے ایسے
دکھوں اور غم میں رویا
تو کبھی خوشیاں سمیٹیں
اوراب تو
ان دواؤں اور دعاؤں پر
رواں ہے یہ زندگی میری
شفق کے رنگ دیکھو
Jul 06, 2020