گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم نے ہرحکومت کو یہ دو کھوکھلے نعرے لگاتے دیکھاہے کہ وہ پاکستان سے طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کریں گے اور یکساں نصابِ تعلیم لاگو کریں گے ۔ کوئی حکومت اپنے اس دعوے میں کامیاب نہیں ہوئی اور نہ موجودہ حکومت کی کامیابی کا کوئی امکان ہے ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ دعویٰ کرنے والے مخلص نہیں تھے۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ آزاد اور جمہوری معاشروں میں نہ یکساں نظام ِ تعلیم رائج ہوسکتاہے اور نہ ہی یکساں نصابِ تعلیم لاگو کیا جاسکتاہے (اور یقین جانئیے اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی ) دنیا کے تمام ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ہمارے ہاں سستی جذباتیت کی مارکیٹ ڈیمانڈ کافی زیادہ ہے لہذا ہر حکومت اس طرح کی نعرہ بازی کرکے اپنے دن پورے کرتی ہے اورپھر لوگ بھول بھال جاتے ہیں۔ تکلیف دہ امریہ ہے کہ ماضی و حال میں اس طرح کی لاحاصل کوششوں پر نہ صرف وقت برباد کیا گیا بلکہ غریب قوم کے مقروض خزانے میں سے لاکھوں کروڑوں روپے بھی ضائع کئے گئے۔ ! ذرا سوچئے یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ کیا وہ شاندار تعلیمی ادارے جہاں بہترین تعلیمی سہولیات سے مزین وسیع و عریض کیمپس ہیں، اعلی تعلیم اور تربیت یافتہ اساتذہ تعینات ہیں، انٹرنیشنل معیار کا نصاب رائج ہے یعنی ایچی سن کالج، لارنس کالج ، تمام کیڈٹ کالجز، فرابلز، روٹس ، بیکن ہاؤس ، سٹی سکول ان کو بند کرکے صرف گورنمنٹ کے پرائمری اور ہائی سکولوں کالجوں ہی کو کام کرنے دیا جائے تاکہ امیر و غریب کے بچے ایک جیسے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں یا پھر مذکورہ بالا اداروں کو بین الاقوامی معیار کا نصاب پڑھانے سے بزور شمشیر روک کر سرکاری سکولوں والا نصاب اور قاعدے کتابیں پڑھانے کا حکم صادر کیا جائے۔ ظاہر ہے اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ ملک میں Oلیول اور A لیول کے امتحانی نظام کا بھی خاتمہ کر دیا جائے۔ پہلے تو یہ لکھ لیجئیے کہ یہ دونوں کام ہونا ناممکن ہیں اور کبھی نہیں ہوں گے۔ نہ تو کوئی حکومت مذکورہ ایلیٹ کلاس تعلیمی اداروں کو ختم کرسکے گی اور نہ ہی ان اداروں کو پاکستان ٹیکسٹ بک بورڈز کا شائع کردہ فرسودہ اور غیر معیاری نصاب پڑھانے پر مجبور کیا جاسکے گا۔ ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے اگر ہمارے تیزی سے تنزل کا شکار معاشرے میں ایچی سن کالج، لارنس کالج، کیڈٹ کالجز اور اس طرح کے اعلی روایات کے حامل تعلیمی ادارے بہترین خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اپنی ہمت سے انٹرنیشنل لیول کا نصاب ِ تعلیم نہ صرف پڑھا رہے ہیںبلکہ اولیول اور اے لیول کے امتحان میں گاہے بگاہے ان اداروں کے سٹوڈنٹس شاندار نتائج کے ذریعے بھی ملک و قوم کا سرفخر سے بلند کیا کرتے ہیں تو ایسے اداروں کے بند کرنے کا سوچنا، یا انھیں انٹرنیشنل لیول کا نصابِ تعلیم پڑھانے سے روک کر کوئی دیسی نصاب پڑھانے پر مجبور کرنا کسی طرح بھی دانش مندی کے زمرے میں نہیں آئے گا ۔ اگر تو یہ ہواہو تاکہ ہم نے اپنے سرکاری تعلیمی اداروں میں کوئی ایسا نصابِ تعلیم بنا کر رائج کیا ہوتا جو انٹرنیشنل لیول کے نصاب کا مقابلہ کرسکتا اور پھر وہ نصاب پڑھا کر Oلیو ل اور A لیول کے برابر نظام ِ امتحان اور نتائج حاصل کئے ہوتے تو ہم ایسا سوچنے میں حق بجانب ہوتے۔ ہمارے ہاں جو نصاب رائج ہے جیسی درسی کتب شائع ہوتی ہیں، جیسا نظام امتحانات ہم نے بنا رکھا ہے اور جو کارکردگی ہمارے سرکاری سکولوں کالجوں کی ہے اسے مدِ نظر رکھ کر جناب شفقت محمود صاحب تھوڑا سا فکر و تدبر فرما لیں اورپھر سوچیں کہ وہ کیا کررہے ہیں اور لکھ لیں کہ یکساں نصابِ تعلیم کی اس سعی لا حاصل کا انجام اس ضمن میں کی گئی ماضی کی کوششوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی سوچا کریں اور محض جذباتیت کا شکارہوکر ملک و قوم کا وقت اور سرمایہ برباد نہ کریں۔ ہمارے ہاں طبقاتی نظام تعلیم ہے یعنی ایلیٹ کلاس کے لیے ایلیٹ کلاس تعلیمی ادارے ہیں اور غریبوں کے لیے سرکاری تعلیمی ادارے ہیں ۔ ایلیٹ کلاس تعلیمی ادارے غیر ملکی نصاب تعلیم پڑھاتے ہیں اورسرکاری تعلیمی ادارے سرکار کا بنایا اور شائع کیا ہوا نصاب تعلیم پڑھاتے ہیں۔ حساس اور نظریاتی تصورات رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں امیر و غریب کے لیے ایک ہی جیسے تعلیمی ادارے اور نصابِ تعلیم ہونے چاہئیں تاکہ قومی اور ملی روایات و اقدار کو فروغ دیا جاسکے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ جب معاشرے میں امیر و غریب طبقات موجود ہیں ان کے بچوں کے تعلیمی ادارے ہی نہیں ان کی رہائشی کا لونیاں ، شاپنگ سینٹرز ، تفریحی مقامات سب کچھ دوسروںسے مختلف ہے۔ تاہم جہاں تک نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کا تعلق ہے تو قومی و ملی روایا ت کی ترویج اور فروغ کے لیے ہم نے برسوں پہلے انہی صفحات پر ایک مضمون بعنوان " ہمارا طبقاتی نظام تعلیم اور اس مسئلے کا حل " میں قابل عمل تجویز پیش کی تھی آج پھر یہاں مختصر الفاظ میں دوہرائے دیتے ہیں۔ ہماری حقیر رائے میں پاکستان میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کا یہ طریقہ نہیں کہ بعض اچھے بھلے تعلیمی ادارے بند کر دیئے جائیں یا بعض اداروں کو ان کی خواہشات کے خلاف ایک خاص قسم کا نصاب پڑھانے پر مجبور کردیاجائے بلکہ اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کی مرکزی حکومت کو پانچویں ، آٹھویں ،دسویں اور بارہویں جماعتوں کا ایک خاص قومی نصاب ترتیب دینا چاہیے جو ہماری قومی اور ملی امنگوں کا ترجمان ہو۔ اس نصاب میں ریاضی، سائنس ، کمپیوٹر سائنس کے علاوہ اردو، اسلامیات، تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان وغیرہ کے مضامین ضرور شامل ہوں۔یہی نصاب سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہو۔ اس نصاب کو مشتہر کرکے پبلشروں کو اس کی درسی کتابیں اپنی پسند کے مرتبین سے مرتب کرائے اور شائع کرنے کی اجازت دے دی جائے اور یہ سٹوڈنٹس یا ان کے اساتذہ کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس پبلشر کی شائع کردہ کتب پڑھتے پڑھاتے ہیں۔پبلشروں میں مقابلے کی فضا کی بناء پر نہ صرف اچھی اور معیاری کتب لکھی جائیں گی بلکہ بروقت وافر مقدار میں مہیا بھی ہوں گی ۔ پاکستان میں زیر تعلیم تمام سٹوڈنٹس خواہ وہ کسی ایلیٹ کلاس ادارے میں پڑھتے ہوں ۔کسی سرکاری سکول و کالج میں زیر تعلیم ہوں یا کسی دینی مدرسے کے طالب علم ہوں ان پر قانوناً لازم قرار دے دیا جائے کہ وہ حکومت پاکستان کا پرائمری ، مڈل ، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح کا امتحان پاس کریںگے ۔ وہ اپنے ادارے میں جو مرضی پڑھیں جو مرضی امتحان دیں اس کے لیے انھیں آزاد رہنے دیا جائے۔ بس ان پر قانوناً لازم ہو کہ وہ حکومت پاکستان کا پرائمر ی ، مڈل ، میٹرک او ر انٹرمیڈیٹ کا امتحان بھی پاس کریں۔ حکومت پاکستان ملک بھر کے تعلیمی بورڈوں کے ذریعے ہر سال فرض کرے اور جنوری میں پرائمری سطح کے، فروری میں مڈل سطح کے، مارچ میں میٹرک کے اور اپریل میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات بڑے منظم طریقے سے لیا کرے۔ یہ امتحانات سارے ملک میں ایک ساتھ ہوں، ایک ساتھ ان کا رزلٹ آیا کرے ۔ ہر اگلا امتحان دینے کے لیے پچھلا امتحان پاس کرنا لازمی ہو۔ جب تک کوئی پرائمری سطح کا امتحان پاس نہ کرے مڈل سطح کا امتحان دینے کا اہل نہ ہواور اسی طرح باقی تمام سطحوں کے امتحانوں کے لیے بھی یہی طریقہ کار ہو۔ اب کوئی کسی بھی ادارے میں پڑھے، کوئی سا بھی امتحان
دے اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ حکومت پاکستان کے یہ امتحانات بھی دے ایلیٹ کلاس اداروں میں پڑھنے والے Oاور Aلیول کریں مگر ساتھ یہ سارے امتحانات بھی سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے سٹوڈنٹس کے ساتھ دیں۔ دینی مدرسوں والے اپنا نصاب پڑھیں۔ لیکن ان کے لیے پرائمری ، مڈل ، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے یہ امتحانات پاس کرنا بھی لازم ہو ۔یہ لازم قرار دیا جائے کہ پاکستان میں سرکاری ملازمت کے حصول اور اعلی تعلیم کے لیے داخلہ اسے ہی دیا جائے گا جو یہ امتحانات پاس کرکے آئیں گے۔ اس طرح کے نظام کو اپنانے سے دینی مدرسے ہی نہیں سب کے سب قومی دھارے میں شامل ہوجائیں گے اور ذرا غور فرمائے یہ سب کرنے کے لیے نہ کسی اکھاڑ پچھاڑ کی ضرورت پڑے گی نہ کوئی مزاحمت کرے گا اور نہ ہی قومی خزانے میں سے ایک بھی ٹکا خرچ کرنا پڑے گا ۔