غیرت کے نام پرخواتین کا قتل کب تک

اطلاعات کے مطابق وزیر اعلی سند ھ مراد علی شاہ کے آبائی ضلع جامشورو کے ایک گاوں وڈا چھچھر کی خاتون وزیراں چھچھر کو پتھر مار مار کر سنگسار کر دیا گیا جس کی وجہ سے اس کے چہرے اور جسم کی تمام ہڈیاں بری طرح ٹوٹ گئیں اور وہ جان کی بازی ہار گئی۔ آج کے جدید دور میں کھلے عام اور ماورائے عدالت قتل کی اس واردات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سندھی وڈیروں کے اثرو رسوخ کے علاقوں میں غیرت کے نام پر عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا کس قدر آسان کام ہے۔ وزیر اعلی سندھ کے ضلع میں ہونے والے اس دردناک واقعے پر انظامیہ کی طرف سے کسی نوعیت کی کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائے جانے کی تا حال کوئی اطلاع نہیں ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سندھی وڈیرے کس قدر طاقتور اور قانون سے بالاتر ہیں۔ وزیراں چھچھر کی سنگساری کے واقعے میں قطع نظر اس کے کہ اس لڑکی پر لگایا گیا الزام درست تھا یا غلط ایک آئین و قانون اور عدالتی نظام رکھنے والی ریاست میں کسی وڈیرے، پنچائت یا جرگہ کو سزا دینے اور انسانی جان لینے کا اختیار حاصل ہونا خود ریاست اور ریاستی نظام کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ وڈیرہ شاہی قانون کے تحت وزیراں چھچھر کی یکطرفہ سنگساری سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس پر یہ الزام درست بھی تھا تو اکیلے اس لڑکی کو موت کے گھاٹ اتارنے کا کیا جواز تھا اسکے ساتھ شریک جرم مرد کو کس قانون اور اصول کے تحت سزا سے بری کردیا دیا گیا۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ وڈیروں کے قانون کا نفاذ صرف عورتوں اور کمزوروں پر ہی کیوں ہوتا ہے انکی پرائیویٹ عدالتوں میں طاقت اور اثر و رسوخ کے حامل مرد ملزم سے مجرم کیوں نہیں بن پاتے۔ وزیراں چھچھر سنگساری واقعے کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی یا تاخیری حربے اختیار کئے جاتے ہیں تو یہ ریاست کی اپنی حدود میں عملداری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر اس واقعے سے صرف نظر کیا جاتا ہے اور وڈیروں کے پرائیوٹ فیصلوں کو قبول کر لیا جاتا ہے تو کیا وڈیرہ راج ریاست کے اندر ریاست کی مانند نہیں ہوگا اور کیا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے نجی فیصلوں کو برداشت کئے جانے کی
روایت قبول کی جاسکے گی اسی طرح کیا اس طرز عمل سے ملک کے دیگر علاقوں میں ماورائے قانون و عدالت اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی۔ اعلی عدلیہ کی جانب سے بھی تا حال خاتون وزیراں چھچھر کی سنگساری کے سنگین واقعے پر کوئی ازخود نوٹس کی اطلاع سامنے نہیں آئی ۔سوال یہ ہے کہ اعلی عدلیہ کی طرف سے ایسے واقعات پر اپنا اختیار استعمال کرنے سے بہتر کون سا آپشن ہوسکتا ہے جن میں کھلے عام ریاستی آئین و قانون اور عدلیہ کی حدود و اختیار کو چیلنج کر کے ایک انسان کی جان لے لی گئی ہو۔ سندھ میں وزیراں چھچھر کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ رشتے سے انکار یا شادی کا پیغام رد کر دینے کے نتیجے میں خواتین پر کاری ہونے کا الزام لگا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ قوم کی بیٹیاں کب تک اس نام نہاد غیرت کے الزام کی بنیاد پر قتل ہوتی رہیں گی۔

ای پیپر دی نیشن