پاک امریکہ تعلقات… ڈومور سے نو مور کا سفر

 امریکہ میں 2001 میں ہونے والے نائن الیون حملوں نے پاک امریکہ تعلقات کو ایک نئی سمت دی امریکہ نے ان حملوں کا ذمہ دار شدت پسند تنظیم القاعدہ کو قرار دیا اور اس کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے امریکہ کو اتحادیوں کی ضرورت تھی افغانستان کے ساتھ سرحد اور جغرافیائی تعلق کے لحاظ سے پاکستان ایک اہم ملک تھا لہذا امریکہ نے پاکستان سے تعاون طلب کیا  نائن الیوین حملوں کے دوران  پاکستان میں فوجی حکومت تھی اور جنرل پرویز  مشرف آرمی چیف اور ملک کے صدر تھے امریکہ کی اس جنگ میں پاکستان نے ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا امریکہ کو شدت پسندوں کیخلاف کاروائی کرنے کے لیے  فوجی اڈے فراہم کیے گئے اس فیصلے سے ایک نقصان یہ ہوا کہ القاعدہ کے بہت سے دہشت گرد  پاکستان میں آگئے اور قبائلی علاقوں میں روپوش ہوگئے انہوں نے یہاں دہشت گرد کاروائیاں  شروع کر دی اس تعاون کے بدلے پاکستان کو امریکی امداد ملی اور قرضے بھی معاف ہوئے لیکن اس سے پاکستانی دہشت گردوں کے نشانے پر آگئے  پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ان کے خلاف کاروائیوں میں ہمارے بہت سے سولین اور فوجی جوان مارے گئے امریکہ نے کبھی بھی پاکستان کی قربانیوں کو نہیں سراہا اور ہمیشہ ڈومور کا ہی مطالبہ کرتا رہا ہے امریکہ افغانستان کی اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ ہوئی  دہشت گرد حملوں اور بم دھماکوں کی وجہ سے انویسٹرز پاکستان آنے سے گریز کرنے لگے  دنیا میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر جانا جانے لگا پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے موثر کردار ادا کیا دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچائے کے لیے کئی فوجی آپریش شروع کیے گئے اور بھارت  اس صورتحال سے پورا فائدہ  اٹھا رہا تھا ۔ 20 سال کے دوران امریکہ طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا پاکستان نے افغانستان میں امن کے لیے سنجیدہ کوشیشیں کیں دسمبر 2018 میں پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں امن معاہدہ طے پایا کیونکہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان میں امن کی ضمانت ہے  دونوں کا امن ایک دوسرے سے مشروط ہے 10 کھرب امریکی ڈالر اور 24000  سے زیادہ انسانی جانوں کے نقصان کے بعد امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج واپس  بلانے کا اعلان کیا ہے  امریکی  صدر جوبائیڈن کے مطابق 11 ستمبر سے فوجی انخلا شروع ہو جائے گا  امریکہ یہ چاہتا ہے افغانستان سے جانے کے بعد بھی اس پر ہمارا کنٹرول رہے امریکی انخلا کے بعد افغانستان  میں خوفناک خانہ جنگی شروع ہو سکتی  طالبان اور کابل حکومت کی فورسز میں شدید لڑائی کی اطلاعات مل رہی ہیں طالبان افغانستان میں حکومت بنانے کی تیاریوں میں ہیں اور امریکہ ایسا   بالکل نہیں چاہییگا اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ سکتے ہیں ایک حالیہ انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان سے جب امریکی صحافی نے سوال پوچھا کیا آپ امریکہ کو اپنے  فوجی اڈے دیں گے  تو وزیر اعظم  عمران خان نے وہ تاریخی جملہ بولا   بالکل  نہیں " Absolutely Not" . پاکستان کا اب واضح موقف ہے کہ اب امریکی لڑائی نہ اپنی سر زمین پر لڑی جائے گی اور نہ ہی کسی ایسی جنگ کا حصہ بنا جائے گا امریکہ کو چاہئیے وہ پاکستان کو تجارتی منڈیوں تک رسائی دے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم سے تعاون کرے  اب پاکستان دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت اور ترقی کے راستے بنا رہا ہے ترقی کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں اب یہاں دہشت گرد کاروائیوں اور بم دھماکوں کی گنجائش نہیں اب پاکستان امریکہ سے قیام امن کا شراکت دار تو بنے گا لیکن کسی تصادم میں شراکت داری ممکن نہیں۔

ای پیپر دی نیشن