مظفرگڑھ تا پنجند قاتل روڈ کی کب سُنی جائے گی؟

’’ جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا‘‘ کہ مظفرگڑھ ہیڈ پنجند قاتل روڈ کو بجٹ میں شامل نہ کر کے ایک بار پھر یہاں کے عوام کو مایوس کیا ہے۔ یہ تو ہماری ہی ’’ریاست مدینہ‘‘ ہے کہ جہاں ضلع کے 45لاکھ لوگوں کو قاتل روڈکیلئے ایک پائی تک دینا گوارہ نہیں کیا گیا لیکن صرف ایک فرد کو اس کے گھرتک لنک روڈ دینے پر 90 کروڑ اڑا دینا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ خونی روڈبنام   پاکستان سے بھی بہت
 پہلے اُس وقت بنی جب  نواب شجاع نے اپنی دختر خان بی بی کو خان گڑھ بطور عطیہ دیا جو اپنے بھائی نواب مظفر  خاں والئی مظفرگڑھ  کی فوج کی سپہ سالار تھی۔چنانچہ آمد و رفت کی خاطر مٹی ،دھول زدہ اس کچی روڈ کا سرا وجود میں آیا۔ جب’’جنگ منکیرہ‘‘ ہوئی تو سب سے پہلے اس روڈ نے’’خان بی بی‘‘ کو اس کے ساتھیوں سمیت نگل لیا۔1818ء میں سکھوںکے قبضہ خان گڑھ اور قیام پاکستان کے وقت ہندو مسلم فسادات میں سب سے زیادہ خونریزی اسی روڈ پر ہوئی۔1849ء میں انگریز حکومت نے خان گڑھ کو ضلعی صدر مقام بنایا جس کی 
تحصیلوں میں رنگ پور،کینجر (شاہ جمال) اور سیت پورشامل تھیں۔ جس کی بناء  پر اس روڈ کی ان تحصیلوں تک توسیع کر دی گئی۔ جسے بعد میں  بتدریج سنگل روڈ کی شکل میں پختہ کیا گیا۔ اس کی  انتہائی مختصر چوڑائی ناہمواری اورمصروف ترین ہونے کی بنا پرگاڑیوں کے تصادم نے اب تک کئی انسانی زندگیاں اور گاڑیاں نگل لی ہیں اور اب یہ خونی 
کھیل پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکا ہے۔1993ء میںممتاز سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خاں مرحوم نے پہلی مرتبہ اسے  دو روئیہ کرنے کی آواز بلند کی اور اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو سے حکم جاری کرایا۔مگر حکومت ختم ہو گئی۔ دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف  نے رہائشی کالونی میراں ملاں خان
 گڑھ کی افتتاحی تقریب میں اسے دو رویہ کرنے کا اعلان کیا۔ سروے ہوا لیکن حکومت چلی گئی اور فنڈز ریکارڈ سمیت’’ اُڑن چھو‘‘ ہو گئے۔
سروے رپورٹ کے مطابق مظفرگڑھ تا ہیڈ پنجند اس 112 کلومیٹر لمبی روڈ کا تخمینہ لاگت40اَرب طے ہوا۔ پھر فنڈز نہ ہونے کی بنا پر اسے تین مرحلوں میں مکمل کرنے کا اعلان ہوا۔ ’’فیزوَن ‘‘ میں اسے ترکی ہسپتال مظفرگڑھ کے نزدیکی چوک بائی پاس ڈیرہ غازی خاں مظفرگڑھ سے تلیری کنال خان گڑھ کی دونوں پٹڑیوں سے  جی روڈ اور ہر پل کے راستے چوک بائی پاس ماڑھا روہیلانوالی تک بنایا جاتا تھا۔ جس پل کا کل تخمینہ لاگت 9اَرب رپورٹ ہوا۔ جس
 میں سرکاری تنصیبات۔ عمارات اور رقبہ جات کا معاوضہ بھی شامل تھا۔’’ فیز ٹو‘‘ روہیلانوالی تا  شہر سلطان اور ’’فیز تھرڈ‘‘ شہر سلطان تا ہیڈ پنجند براستہ علی پور بائی پاس جانا ہے۔ جو آج تک تشنہ ٔ تکمیل ہیں۔ ضلع کے ارکان اسمبلی سے بھی استدعا ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی فنڈز میں ترمیم، تخصیص و تنسیخ کر کے اگر سالم نہیں تو کم از کم’’فیز وَن‘‘ کی تکمیل میں اپنا حصہ بقدر جُثہ ڈال دیں تو یہ  اس دیرینہ اجتماعی مسئلہ کے حل کیلئے’’  بسم اللہ‘‘ ثابت ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن