کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

Jul 06, 2022

وفاقی بجٹ کے بعد صوبائی بجٹ پیش کر دیا گیا جو عوامی اسمبلی سے پاس ہونے کے اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ہو سکتا ہے اس تحریر کی اشاعت تک بجٹ باقاعدہ دستاویز بن چکا ہو۔ بجٹ پیش ہونے کے مرا حل سے لیکر فنا نس بل کی شکل اختیار کر نے تک اس میں ترامیم ہو تی رہی ہیں کبھی ایک ٹیکس تو کبھی سپر ٹیکس ۔ عام آدمی کی سمجھ سے تو روز اول سے ہی یہ گتھی نہیں سلجھ سکی کہ بجٹ کیا ہو تا ہے ۔ اور سالانہ بجٹ کے بعد ضمنی بجٹ کسے کہتے ہیں ۔ حالیہ بجٹ میں تو ہر شعبہ زندگی کے لو گ بے بس اور لاچار نظر آتے ہیں ، مہنگائی کا جن سر عام سرکاری اداروں اور مہنگائی پرخصوصی نظر رکھنے والی کمیٹیوں کو منہ چڑھا رہا ہے۔روز مرہ کی اشیاء پٹرول ، ڈیزل کے ہوشربا اضافے کے بعد بے قابو ہو چکی ہیں۔ اس حکومت کے قائم ہونے کے بعد اعلان کیا گیاکہ ملازمین اورپنشنرزکی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کردیا گیا۔ اس اپریل کے مہینہ میں غیر متوقع اضافے نے ملازمین اور ریٹائرڈ ملا زمین اور ان کے اہل خانہ میں جشن کا سامان پیدا کر دیا لیکن سابقہ حکومت کے بے شمار یو ٹرنز کے بعد اس حکومت نے بھی ایسا یو ٹرن لیا کہ تنخواہ دار طبقے کو ما یو س کردیا اور حکومتی تردید سامنے آگئی ۔حکومتی تردید میں کبھی یہ کہا گیا کہ ملازمین کی تنخواہوں میں مناسب اضافہ سالانہ بجٹ میں کیا جائیگا۔ دوسری طر ف یہ بھی کہا گیا کہ پنشنر ز کا ماہ اپریل سے دس فیصد واپس نہیںکیاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کے سرکاری ملازمین کو ماہ اپریل سے تا حال کوئی اضافہ موصول نہیں ہوا بلکہ کوئی سرکاری چٹھی بھی جاری نہیںکی گئی ۔سالانہ بجٹ میں پھر یہ اعلان ہوا کہ سرکاری ملازمین کی تنخوا ہوں میں پندرہ فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ ریٹا ئرڈ ملا زمین کی پنشن میں پانچ فی صد اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ سرکاری ملازمین کو پندرہ فیصد اضا فے کے ساتھی الگ ڈسپیرٹی الائونس دینے کا بھی اعلان ہوا ہے ۔ پندرہ فیصد تنخواہ اور خصوصی ڈسپیرٹی الائونس جو پندرہ فیصد بتا یا جا رہا ہے یہ سب ملا کر تیس فیصد اضافہ بنتا ہے ۔ یہ اضافہ تسلی بخش تو ہے لیکن تا حال بات واضح نہیںہو سکی اور نہ ہی صوبائی وزیر خزانہ سردار اویس لغاری کی بجٹ تقریر سے اورنہ ہی پوسٹ بجٹ تقریر سے ابہام دور ہوسکا ۔ سرکاری ملازمین اور ان کی نمائندہ تنظیمیں بجٹ دستا ویز جاری ہونے کی منتظر ہیں تاکہ صورت حال واضح ہو سکے ۔ جہاں تک وزیر خزانہ کی وضاحت کا معاملہ ہے تو انہوں نے ریٹا ئرڈ ملا زمین کی پنشن میں اضافہ پانچ فیصد کا اعلان کیا اور اسی طرح اپریل سے جس اضافے کا اعلان نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے کیا تھا جو کہ دس فیصد تھا ، وزیر خزانہ نے اسے بھی پانچ فیصد اضا فہ بتا یا گیا ہے ۔ پنشنر ز کی نہ تو کوئی نما ئندہ تنظیم نظر آتی ہے اوروہ انتہائی مایوس نظر آتے ہیں اور ان کا مطالبہ جائز ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ تو تیس فیصد بنتا ہے اور جسے سالانہ بجٹ میں بتا یا گیا ہے جبکہ پنشنرزکا اضا فہ پانچ فیصد سامنے آرہا ہے ۔ 
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضا فہ تیس فیصد ہو یا پندرہ فیصد اسی طرح ریٹا ئر ڈ ملازمین کی پنشن میں اضا فہ پانچ فیصد ہے ، دس فیصد ہے یا پندرہ فیصد جو تاحال واضح نہیں ہوسکا اور کوئی حکومتی ذمہ دار اس مسئلہ کو سمجھانے اور سلجھانے کی واضح کو ششیں بھی نہیں کر رہا ۔ ہم زیا دہ سے زیا دہ اضا فے کو فرض کر لیں تو بھی مہنگائی جس میں پٹرول، ڈیزل ، گھی اور بالخصوص بجلی کے بلوں میں اضا فے نے عام آدمی کی طرح سرکاری ملازمین اور پنشنر ز کو بھی زیرو پر لا کر کھڑا کر دیا ہے ۔ مہنگائی کے مقابلے میں حالیہ اضافہ کچھ بھی نہیں بالخصو ص ریٹا ئر ملا زمین کی پنشن میں نامعلوم اضافہ ان کیلئے شدید پریشانی کا باعث ہے ۔تنخواہوں اور پنشن کا اضافہ جو کتنا ہوا ہے تا حال معلوم نہیں حکومتی ایک دعوی ایسا بھی سامنے آیا تھا کہ وفاقی وزارت صحت نے ایم بی بی ایس مکمل کرنے والے نوجوان ڈاکٹروں کیلئے جسے این ایل ای کہتے ہیں اسے ظالمامہ قدم قرار دیتے ہوئے رد کر دیا تھا اورمبینہ طور پر قوانین میں ترامیم بھی کر لی گئی تھیں اور وفاقی وزیر صحت نے اپنے ٹویٹ سے خو شخبری بھی ڈاکٹرں کو دے دی تھی لیکن اس کے بر عکس ڈاکٹروںکو امتحانات کیلئے بلا یا گیا ہے ۔اس ظالمانہ اقدام کی ہر طبقے نے مذمت کی ہے  اور کچھ سمجھ نہیں آرہی ۔

مزیدخبریں