ذی الحجہ، حج اور ایثار وقربانی کا مہینہ

Jul 06, 2022

آج7ذی الحجہ ہے، آج سے حج کی رسومات کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔آج منی کے میدان میں خیمہ بستی آباد ہو جائیگی۔جہاں حجاج کرام اللہ کی عبادت کو اپنا شعار بنا کر قربِ الٰہی کے حصول میں کوشاں ہوں گے۔ اسی ماہ کی 10تاریخ کو عید الاضحی منائی جاتی ہے جو اُس عظیم قربانی کی یاد دلاتی ہے جب اللہ کے مقرب پیغمبر اور انبیاء کے جدِ امجد حضرتِ ابراہیم ؑنے اللہ تعالیٰ کی خشنودی کی خاطر اپنے لختِ جگر حضرتِ اسماعیل ؑ کی قربانی اللہ کے حضور پیش کی۔اپنے مقرب بندے کی یہ ادا اللہ تبارک تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اللہ نے اس دن اور اس واقعے کی یاد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یاد گار بنا دیا۔
ہجرت مدینہ کے بعد ایک روز حضورﷺ نے دیکھا کے مدینہ کے لوگ کھیل کود میں مشغول ہیں، آپ ﷺ نے استفسار کیا کہ یہ کیا ہے؟ آپ کو بتایا گیا کہ ’’ہم زمانہ جہالیت سے ہی دو دن خوب ہلا گُلا کرتے ہیں اور کھیل کود میں د ن گزاراکرتے ہیں‘‘ یہ جواب سن کر آپﷺ نے فرمایا ،’’کیا میں تمہیں اس کا بہتر متبادل نہ بتاؤں ؟پھر فرمایا ’’ اللہ نے تمہیں دو دن اس سے بہتر عطا فرمائے ہیں ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی، سو ان دنوں میں خوب کھیل کود کرواور خوشی مناؤ‘مسلمانوں کے لیے یہ دونوں دن جہاں تفریح کا باعث ہیں وہیں ان دنوں میں بہت سی ایسی باتیں بھی شامل ہیں جن کے کرنے کا بے حد ثواب بھی ملتا ہے۔ 
ان میں عیدالفطر دراصل ماہ رمضان میں روزے کی پابندی اور دیگر عبادات کے انعام کے طور پر اللہ کا خاص احسان اور تحفہ ہے۔ روزے کی مشقت اور قیام لیل کی صورت میں اللہ کی عبادت کا صلہ مسلمانوں کو عید الفطر کی صورت میں ملتا ہے، جس روز مسلمان خوشی مناتے ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے بہت معمولی رقم فطرانے کے طور پر مستحقین کے لیے مقرر کر کے جہاں غریبوں ، مسکینوں  اور محتاجوں کو عید کی خوشی میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے وہیں فطرانے کی ادائیگی کا بے بہا ثواب اور اجر عید کے انعام کے ساتھ بونس کے طور پر عطا کیا ہے۔ ویسے بھی ماہ رمضان کو ’ نیکیوں کی لوٹ سیل ‘کا مہینہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اس مہینے کی فضیلت ہے کہ اس مہینے میں ہر نفلی عبادت کا ثواب فرض کے برابراورہر فرض کا ثواب 7سے70گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اتنے مبارک اور بابرکت ماہ میں کوئی بد بخت ہی ہو گا جو اللہ کی عبادت کر کے دوزخ سے چھٹکارا اورجنت میں مقام حاصل کرنے کی جستجو نہ کرے۔
دوسرا دن عید الاضحٰی کا ہے جو بڑی عید سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس کی ایک وجہ توںیہ ہے کہ عید الفطر ایک دن منائی جاتی ہے اور عیدالاضحی تین دن تک منایا جانے والا تہوار ہے، لیکن اگر اس میں حج کی رسومات کو بھی شامل کر لیں توں یہ پورے ایک ہفتے کا تہوار بنتا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر ان کے معبودِ برحق کی جانب سے ایک اور بڑا احسان اور انعام ہے جو ایک طرف عبادت کی ترغیب ہے تو دوسری طرف اللہ کے انتہائی مقرب نبی کی بے مثال، لازوال اور عظیم قربانی کی یاد تازہ کرنے کا خوبصورت موقع ہے۔
یوں تو دنیا میںاللہ کی توحید کا علم بلند کرنے کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی آمد ہوئی۔ ان میں حضرتِ ابراہیمؑ کو اللہ نے اپنا پسندیدہ بندہ کہہ کر مخاطب کیااور انہیں خلیل اللہ کے لقب سے نوازا۔ اللہ کے یوں تو کئی پیغمبر فضیلت کے اعتبار سے منفرد ہیں جن میں حضرت آدم ؑ سے لے کر نبی آخر زمانﷺ تک متعدد انبیاء کا تذکرہ ان کی فضیلت کے اعتبار سے قرآنِ مقدس میں بار ہا ہوا ہے۔ان میں ایک سب سے بڑی فضیلت یہ کہ آپ کے سلسلہ نسب سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ ؑ تک ایک تسلسل کے ساتھ انبیاء معبوث ہوئے جو آپکے چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحاقؑ کی نسل سے تھے جنہیں حضرت یعقوب ؑ کے لقب ’’اسرائیل‘‘ کی نسبت سے ’’بنی اسرائیل‘‘کہہ کر مخاطب کیاگیاجو اپنے وقت کی اللہ کی سب سے لاڈلی امت قرار پائی اور اسے قرآن میں سب سے اعلیٰ امت کہا گیا۔ حضرتِ ابراہیم ؑ کے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیلؑ کے سلسلہ نسب سے بظاہر انکے بعد نبی آخرزمان تک کوئی اور نبی معبوث نہیں ہوا۔نبی آخرزمان کو ’’دعائے خلیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دعا حضرت ابراہیم ؑنے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کرتے ہوئے مانگی تھی کہ اے رب کعبہ ہماری اس مشقت کو قبول فرما اور میری نسل سے آخری نبی کو معبوث فرمانا‘‘ یہ دعاشرفِ قبولیت کوپہنچی۔ کعبہ کی تعمیر مکمل کرنے کے بعد آپ(ابراہیمؑ) اور اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے،ان کی اس ادا کو اللہ تعالی نے حج اور عمرہ کرنے والوں کیلیے لازمی قرار دے دیا۔ اس سے پہلے جب اسماعیل ؑ ابھی شیر خوارگی کی عمر میں تھے تو اللہ نے اپنے نبیِ مقرب کو آزمانے کے لیے ، ماں اور بیٹے کو مکہ کی بے آب وگیاہ صحرامیں چھوڑنے کا حکم دیا۔ ماں نے بھی انتہائی استقامت سے رضائے خداکے سامنے سر تسلیمِ خم کیا۔ جب آپ ؑ ماں اور بیٹے کو مکہ کی وادی میں چھوڑ آئے تو بچے نے پیاس کی شدت سے رونا شروع کیا، ماں کسی قافلے کی امید میں صفا اور مروا کے درمیان بے ساختہ دوڑیں۔اس ادا کو بھی رب العزت نے حج اور عمرہ کی رسومات کا لازمی حصا قرار دیا۔ اس سے بھی بڑھ کر جب آپؑ کے بڑھاپے کا سہاراابھی تیرہ سال کی عمر کو نہیں پہنچا تھا کہ اللہ کا حکم آیا کہ اپنی سب سے عزیز چیز کی قربانی دیں تو آپ نے فیصلہ کرنے میں ذرا توقف نہیں کیا اور سمجھ لیا کہ بیٹے سے بڑھ کر ان کی عزیز چیز اور کوئی نہیں۔ بیٹے سے بات ہوئی تو جواب ملا،’’ اباجان! جو اللہ کا حکم ہے کر گزریے، ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے‘‘جب باپ نے بیٹے کو لٹا کر ذبح کی نیت کی تو اللہ نے آپ کی اس ادا کو قبول کرتے ہوئے معجزانہ طور پر مینڈھا نازل فرما کر، اس سنتِ ابراہیمی کو ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کیلئے لازمی قرار دیا۔  

مزیدخبریں