ایک طرف بلوچستان میں بارشوں سے سیلاب آیا ہوا ہے۔ سیلاب سے بہت کچھ بہہ چکا ہے۔ سیلابی ریلے اس قدر تیز تھے کہ متعدد لوگ ان میں بہہ گئے جبکہ متعدد علاقوں میں گھروں میں بارش کا پانی داخل ہونے سے گھر رہنے کے قابل نہیں رہے۔ یہ صورتحال نہایت تشویش ناک ہے۔ ایک تو لوگوں کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ زندگی مشکل سے گذرتی ہے ان حالات میں ایسی آفت سے زندگی بھر کی کمائی یا جمع پونجی ایک ریلے میں بہہ جاتی ہے۔ کوئی مددگار نہیں ہوتا، کوئی غم خوار نہیں ہوتا، لٹے پھٹے بے بس لوگوں کے پاس آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایک طرف ہم پانی کی کمی کا شکار ہیں، دوسری طرف ہم اتنا پانی ضائع کرتے ہیں کہ شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ کیا حکومت نے کبھی سوچا ہے کہ بارش کے پانی سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس پانی کو ضائع ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ نہ حکومت پانی ذخیرہ کرنے یا اس پانی سے فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ کر سکتی ہے نہ اس پانی سے آنے والی تباہی کو روک سکتی ہے۔ کیا صرف متاثرین کی معمولی مالی مدد اور کارروائی کے چند الفاظ کافی ہیں۔ ایک طرف تو تباہی ہوتی ہے دوسری طرف پانی ضائع ہوتا ہے اور ہمارے فیصلہ ساز سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں کچھ سیکھتے نہیں۔ ایک طرف تو طوفانی بارشوں سے سیلاب آیا ہوا ہے اور سیلابی ریلے سب کچھ بہائے لے جا رہے ہیں تو دوسری طرف بیانات کے سیلاب میں ہماری سیاسی رواداری، باہمی احترام، اخلاقی قدریں سب کچھ بہہ چکا ہے۔ بات کرتے ہوئے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے، الفاظ پیچھا نہیں چھوڑتے۔ انسان اپنے الفاظ کا غلام ہوتا ہے لیکن موجودہ دور میں سیاسی نفرت عروج پر ہے اور یہ سوچنے کا وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہر روز کسی آڈیو کسی ویڈیو پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے، ہر روز کسی کی ذاتی زندگی پر گھنٹے ضائع ہوتے ہیں۔ باتیں کرتے کرتے سب بھول جاتے ہیں کہ یہ سارے بیانات دنیا میں پہنچ رہے ہیں۔ ہم خود اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ سیاست دان بیانات تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے جاری کرتے ہیں اس میں تو وہ کامیاب ہو یا نہ ہوں لیکن بیرونی دنیا میں ملک کی ساکھ ضرور گرتی ہے۔ نہ ہم سیلابی ریلوں سے ہونے والی تباہی سے کوئی سبق سیکھ سکے ہیں نا ہم تیزی سے ختم ہوتے باہمی احترام کو بچانے کے لیے کچھ کریں گے۔ چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کہتے ہیں "مجھے سب پتا ہے کس کا کیا کردار ہے۔ میں اپنی قوم کے لیے چپ ہوں۔ ملک کو نقصان نہ پہنچے اس لیے کوئی بات نہیں کرتا، جانتا ہوں کس طرح یہ سازش ہوئی اور اس میں کون کون ملوث ہے"۔ خان صاحب فرماتے ہیں کہ وہ چپ ہیں کوئی بتائے کیا اسے "چپ" کہتے ہیں وہ روزانہ بولتے ہیں دل کھول کر بولتے ہیں وہ آئندہ بھی بولیں گے اور اس سے زیادہ بولیں گے۔ یہی وہ رویئے ہیں جن کی وجہ سے ملک عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے، معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور دشمن اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ یاد رکھیں ابھی ہم فیٹف گرے لسٹ سے نکلے نہیں ہیں، پائیدار امن کی طرف سفر کرنا ہے اس حوالے سے سب کو ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں عسکری قیادت کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری مذاکرات اور ملکی سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ، قومی پارلیمانی و سیاسی قیادت، چیئرمین سینٹ، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اراکین، دفاع سے متعلق قومی اسمبلی و سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے اراکین، وفاقی وزرائ، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ سمیت وزیراعظم آزاد ریاست جموں وکشمیر بھی اجلاس میں شریک رہے۔ عسکری قیادت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہی کے لیے اب تک ہونے والی بات چیت کے ادوار پر بریفنگ دی گئی۔ سیاسی رہنماؤں کا عسکری قیادت کے ساتھ مل کر مسائل حل کرنے کے لیے آگے بڑھنا خوش آئند ہے۔ امن قائم رکھنے اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کو مل کر حکمت عملی بنانا ہو گی۔ ایسے اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو منظر عام پر نہیں آنی چاہیے۔ قومی سلامتی سے متعلق معاملات کو خفیہ رہنا چاہیے۔ ایسے اجلاسوں میں کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات عوامی سطح پر آتے ہیں تو ناصرف بداعتمادی اور ابہام پیدا ہوتا ہے بلکہ اہم معاملات میں تعطل بھی پیدا ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے اجلاسوں کو بھی سیاست کی نذر کرتے ہیں اور غیر ضروری طور پر اجلاس کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ قومی سلامتی کے معاملات سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوتے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کی طرف سے پنجاب میں سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے سہولت پیدا کی گئی ہے۔ گذشتہ روز اخبارات میں یہ خبر نمایاں انداز میں شائع ہوئی جب آپ آج اخبار پڑھ رہے ہوں گے تو یہ خبر بھی ضرور نظر آئے گی کہ پاکستان تحریک انصاف کے فواد چودھری نے پنجاب حکومت کی جانب سے سو یونٹ مفت بجلی کے اعلان پر سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کہا ہے کہ پنجاب کو بحران سے نکالنے کے لیے وزیراعلیٰ کا فارمولا سیاسی فوائد کے لیے اور یہ فیصلہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
فواد صاحب کی یہ بات مان لی جائے کہ عدالتی احکامات کہ خلاف ورزی ہے تو کیا سڑکوں پر لیٹے لوگوں کو آئین کیا تحفظ دیتا ہے، بھوکا سونے والوں کے بارے آئین کیا کہتا ہے، زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم افراد کے حوالے سے آئین کیا کہتا ہے۔ چودھری صاحب اگر کہیں سے کسی غریب کو کچھ ملتا ہے تو اسے لینے دیں۔ کمزور افراد کا بھلا بھلے انتخابات کے دنوں میں ہو اسے روکنا نہیں چاہیے۔
مفت بجلی پر اعتراض، قومی سلامتی اور الزامات کا سیلاب!!!!
Jul 06, 2022