مرگی Epilepsy) (

دنیا بھر میں پچاس لاکھ سے زائد افراد مرگی کے مرض کا شکار  جبکہ پاکستان میں اس کی شرح ہر دس کے بعد ایک مریض کی ہے۔ مرگی (Epilepsy)کا مطلب گر جانا۔ اس کا مریض اچانک گر جاتا ہے اس کو پتہ نہیں چلتا۔ ہاتھ پاؤں ٹیڑھا ہونا، دانتوں کا آپس میں جڑ جانا، دورے کی حالت میں رال کا بہنا، زبان کا کٹ جانا۔ دورے کے بعد انتہائی کمزوری ہو جاتی ہے۔ مرگی کا مریض نیم بے ہوشی میں چلا جاتا ہے۔ یہ کیفیت دو تین دن تک رہ سکتی ہے۔ بیماری پرانی ہونے کی صورت میں سر درد، متلی، چکر، گھبراہٹ ہونے سے مریض کو دورہ پڑنے کے اشارے مل جاتے ہیں۔ دورہ بہت شدید ہوتا ہے۔ اس حالت میں مریض کو کروٹ کے بل لٹا دینا چاہئے اور گلے میں کوئی کپڑا وغیرہ ہو تو ہٹا دینا چاہئے۔ دورے کا وقفہ عموماً آدھے منٹ سے دو منٹ تک ہو سکتا ہے۔ اس بیماری کا تعلق دماغ سے ہے۔ یہ موروثی بھی ہوسکتی ہے۔ سر پر چوٹ لگنے،پیٹ میں کیڑے ہونے سے بھی اس کے شواہد ملے ہیں۔ مرگی دماغی مرض ہے۔اس کی وجہ سے دماغ میں برقی لہریں رونما ہوتی ہیں۔ان برقی لہروں (کرنٹ) میں کچھ گڑبڑ ہو جائے تو یہ مرض مرگی کے دورے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ دورے کی شدت کا انحصار ان برقی لہروں کی شدت سے منسلک ہے۔ اس مرض کے
 مریض کا عموماً علاج نہیں کرایا جاتا۔ اس مرض کو چھپایا جاتا۔ بعض عاملین عوام کو گمراہ کرتے ہیں کہ اس پر باہر کی چیزوں جنات، چڑیلوں، پریوں کا سایہ ہے۔ ان کی باتوں میں آکر لوگ علاج سے گریز کرتے ہیں۔ گھر والوں اور رشتہ داروں کا مرگی کے مریض کے ساتھ رویہ مشفقانہ نہیں بلکہ توہین آمیز ہوتا ہے۔ اس سے مرض کی شدت کے ساتھ ساتھ ذہنی کیفیات بھی رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جہالت کی انتہاہے کہ مرگی کے مریض کو دورہ کی حالت میں جوتا سنگھایا جاتا ہے۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ مرگی کے حوالے سے بھی شعور کی آگاہی کا کوئی باقاعدہ فورم نہیں ہے۔ دیہات میں 3سے 5فیصد جبکہ شہروں میں 25سے 30فیصد لوگ علاج کرواتے ہیں۔ بڑے بڑے نامی گرامی لوگ مرگی کے مرض کا شکار رہے ہیں لیکن ان کی نارمل زندگی متاثر نہیں ہوئی۔  معروف سماجی شخصیت مولانا عبدالستار ایدھی اس موذی مرض کا شکار رہے ہیں۔ اس کی اذیت ناکیوں اور عوام کے عدم تعاون کے رویے سے متاثر ہو کر خدمت خلق کے جذبہ کو پروان چڑھایا اور پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اسی طرح  سابق امریکی صدر روز ولیٹ بھی اس مرض کا شکار رہے ہیں۔ انہوں نے اس مرض کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیا جبکہ ہم مرگی کے مریض کو معاشرے کا ناکارہ فرد تصور کرتے ہیں۔ بعض ڈاکٹر اس مرض کو آپریشن کے ذریعے ٹھیک کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ادویات بھی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں۔ میرے مشاہدے میں ہے کہ ایسے بے شمار مرگی کے مریض اب ادوایات کے بغیر نارمل لائف گزار رہے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن