سفرنامے کو خوبصورت ‘ یادگار اور انمٹ یادوں سے مرقع کرنے کا فن کوئی ریاض بٹالوی‘ مستنصر حسین تارڑ‘ پطرس بخاری ، ایم یوسف عزیز اور پروفیسر ریاض ملوٹی سے سیکھئے۔ یہ اور ان جیسی شخصیات کو سفر‘ سیاحت اور منظر کو حسین اور دلنشیں لفظوں سے بیان کرنے پر ملکہ حاصل ہے۔ نگارشات پڑھنے والا خود بخود سفر کا شریک محسوس ہوتا ہے۔ گھگڑ منڈی سے متعلق نوجوان قلم کار محمد وسیم نے کمال کیا انہوں نے ترکی کے بعد قونیہ کے سفر کو مشاہدے کی آنکھ سے دیکھا اور دیانتداری سے تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ مسافت‘ مناظر‘ عقیدت اور خیالات کی ترتیب اور تہذیب شہادت دے رہی ہے کہ محمد وسیم کی صورت میں
دنیائے ادب وثقافت کو منفرد اسلوب کا حامل نیا چہرہ دستیاب ہوگیا ہے۔’’اگر سرزمین روم پہنچ کر مولانا رومیؒ اور شمس تبریزؒ کے شہر قونیہ حاضری دئیے بغیر لوٹ گیا تو زندگی بھر اپنے آپ کو کیسے معاف کر پاؤں گا‘‘جملے کی بناوٹ خود کتاب اور صاحب کتاب کے ذہنی وفکری معیار کی شمع فروزاں کررہی ہے! تین ہزار سال قبل مسیح شہر قونیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ آسمان نے وہ منظر بھی دیکھا جب یونانی جنگجو پرسیوس نے قدیم قونیہ پر قبضہ کیا اور طاقت کے نشے میں شہر کی تمام آبادی کو تہ تیغ کر دیا ۔ 1500 قبل مسیح یہاں ھٹی قوم آباد ہوئی۔ تین سو برس بعد شعوب البحرآئے ۔ 330 قبل مسیح اسکندر اعظم ایرانوں کو روندتا ہوا شہر میںداخل ہوا۔ 50 عیسوی میں کلا ڈیس نے فتح کیا اور شہر کا نام بدل کر اسے سلطنت روما کا حصہ بنایا۔ برادر محمد وسیم کی سفرنامے پر مبنی کتاب ’’قونیہ مجھے بلا رہا ہے ‘‘ اپنے نام کی طرح عمدہ ہے۔ ایمل مطبوعات اسلام آباد کی طبع کردہ کتاب پر تصنیف وتالیف ‘ تدریس اور مشاہدات کی دنیا کے تین ’’بڑوں‘‘ کے تبصرے اور آراء شامل ہے۔ مستنصر حسین تارڑ‘ عطاء الحق قاسمی اورڈاکٹر پروفیسر فتح محمد ملک نے درست لکھا کہ نئے قلم کار کی یہ غیر معمولی کاوش یقیناً مثالی ادبی مستقبل کی بشارت ہے ’’اللہ کرے زور قلم اور زیادہ‘‘(تبصرہ: محمد ریاض اختر )
گوشہ کتاب …حضرت شمس تبریز کا شہر ‘‘قونیہ‘‘
Jul 06, 2022