تحریر : فرخ مرغوب صدیقی
پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش ہمیشہ ناکام رہیں گی
پاکستان کی سیاسی ،تاریخ اور قانونی صفحات آمروں اور اُن کے دست بازیوں اور چہر ہ دستیوں سے بھری پڑی ہیں۔ جسٹس منیر جو قیام پاکستان سے قبل ہی متنازع شخصیت تھے (فیڈرل کورٹ ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے اور تین بدترین فیصلے اُن کے ہاتھوں لکھے گئے ۔ یوسف پٹیل کیس ، ڈوسو کیس کے بعد ایوب خان کے مارشل لاءکو قانونی قرار دینا اُنہی کمالا ت میں سے ایک تھا۔ اس سے قبل 1954ءمیں ڈوسو کیس میں نظریہ ضرورت ایجاد کر چکے تھے اور گورنر جنرل کی جانب سے ہنگامی حالات کے نفاذ کو قانونی قرار دے چکے تھے۔ پھر محترم جسٹس منیر ایوب خان کے مارشل لاءکو آئینی تحفظ دینے میں کامیاب ہوئے اور ایک آمر کو پاکستان کا مالک و مختار قرار دیا۔ اس کے بعد آمریت کی نگہبانی کا فریضہ جسٹس کارنلس نے اُٹھایا اور پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس بنے ۔ آٹھ سال ایوب آمریت کو تحفظ دینے کے بعد جنرل یحییٰ خان کے وزیر قانون بن گئے اور آمر کو بتانے لگے کہ عام انتخابات میں کوئی اکثریت حاصل نہ کر سکے گا اور یوں وہ آسانی سے اقتدار پر قابض رہیں گے۔ جنرل یحییٰ خان جیسے آئینی ، قانونی اور اخلاقی مجرم کو سہارا دینے کی کوشش کرتے رہے۔ شیخ مجیب الرحمان کو مغربی پاکستان میں قیدرکھنے میں یقیناً اُنہی کا مشورہ شامل تھا ۔ پاکستان اور یحییٰ خان دونوں کی بد قسمتی کہ مشرقی حصے میں شیخ مجیب الرحمان اور مغربی حصے میں بھٹو کو اکثریت مل گئی ۔ مجھے حیرت ہے کہ ہماری ایجنسیاں ہمیشہ اپنے مقاصد کے حصول اور عوام کے تحفظ میں ناکام رہتی ہیں۔ بد قسمتی سے شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے مغربی حصے میں قید رکھا گیا جس کا پہلے سے ملک کے دونوں حصوں پر تباہ کن اثر پڑا۔ اس صورت حال میں وزیر قانون صدر کو اختیار پر قابض رہنے والا فارمولا بتاتے رہے ۔ جسٹس منیر یہی تھے جنہوں نے1954ءکی اسمبلی میں طے شدہ فارمولا کہ مشرقی پاکستان میں اقتدار کی تقسیم کس طرح ہوگی۔ یہ بہترین فارمولا ہوتا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی کے حساب سے 55%نشستیں ہو نگیں اور مغربی پاکستان کی 45% نشستیں ہونگیں۔ جسٹس منیر نے گورنر جنرل کے ہنگامی حالات کے نفاذ کو درست قرار دے کر سارے سیاسی عمل کو تباہ کر دیا۔
اس علاقے کی خوش قسمتی کہ لٹے پٹے پاکستان کی قیادت شہید بھٹو کے ہاتھوں آگئی ۔ بھٹو نے پوری دنیا کا ہنگامی دورہ کیا اور وسائل کے حصول کو ممکن بنایا ۔ تیسری دنیا کا تصور اُجاگر کیا ۔ شکست خوردہ ملک اور فوج کو پھر سے منظم اور طاقت ور بنایا ۔83ہزار سے زائد فوجی اور10ہزار سے زائد سول افراد کو وہ کامیاب مذاکرات کے ذریعے بھارت کی قید سے رہائی دلائی ۔ اسلامی کانفرنس کے بعد تیسری دنیا کا بلاک بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ علاقائی وسائل کے اپنے ہی استعمال اور لوکل کرنسی میں تجارت اُن کا اہم ترین نقطہ تھا۔ جس پر بھٹو نے کام شروع کر دیا۔ روس ، چائینہ اور ایران کے دورے کے پس پردہ یہی کوششیں رہیں جو سفید ہاتھی کو پریشان کیے ہوئے تھیں۔ اور پھر ایک عام انتخابات ہوئے بھٹو کی پارٹی بھاری اکثریت سے فتح یاب ہوئی مگر بین الاقوامی طاقتوں کو موقع مل گیا ۔ الیکشن مہم کے باعث بھٹو مخالفین بھی منظم ہو گئے تھے ۔ اُن کو نظام مصطفیٰ کے نام پر میدان جنگ میں اُتارا دیا گیا۔ ڈالر 15روپے سے مارکیٹ میں7روپے کا ہو گیا۔ بھٹو کے قتل کا منصوبہ تو پہلے ہی تیار تھا۔ دو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ میں مولوی مشتاق اور سپریم کورٹ میں انوارالحق ۔ ایک عوامی قائد کے گلے میں ایک جھوٹے کیس کے ذریعے پھانسی کا پھندہ ڈالنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے۔ بھٹو ز اس کے بعد بھی قتل کیے جاتے رہے۔ مگر پیپلز پارٹی ختم نہ ہو سکی۔ شاہنواز بھٹو کو پیرس میں اور مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں اور بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی ۔ آصف زرداری نے محترمہ کے قتل پر پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کر دیا اور قاتل گروہ کے لیے شدید پریشانی پیدا ہوئی۔ جب اُنہیں محسوس ہوا کہ اُن کی یہ سازش بھی ناکام ہوئی ہے تو اُنہوں نے پیپلز پارٹی کے مقابلہ کے لیے سندھ میں JDA, اور لسانی گروہ کے لیے گروہ سرگرم کیے گئے۔ آصف زراداری انتہائی تہمل او ربرداباری سے دوسروں کو عزت دیتے ہوئے اپنا موقف منوا لیتے ۔ سندھ اور لسانی کارڈ ناکام ہوا۔ ہم پاکستان کے جسٹس نظام کی کر رہے تھے۔ 1990میں محترمہ بینظیر کی حکومت برطرف کی گئی تو اُس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جن کو محترمہ بے نظیر نے کئی سینیئر ججز پر تر جیہی دے کر سپریم کورٹ میں لائی تھیں۔ اُس کے بعد یہاں بھی اُن کو کئی ججز پر فوقت دے کر چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا مگر موصوف نے پیپلرز پارٹی کی حکومت کی برطرفی کو درست قرار دے کر االیکشن میں جانے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ میں سجاد علی شاہ کا رویہ پارٹی کے وکلاءاور لیڈران سے اس قدر توہین آمیز ہوتا تو حیرت ہوتی ہے کہ انصاف نہ کرﺅ ۔ تمہیز اور تہذیب کا استعمال تو کرﺅ۔ اس طرح وقت گزرتا گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف اس سے قبل ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کر چکے تھے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری سے اُن کا کراچی سٹیل ملز کی نجکاری کے مسئلے پر شدید اختلاف ہو چکا تھا۔ میں پیدائشی مارشل لاءاور آمر یت کا مخالف ہوں اور اسی طرح جوڈیشری کی انتظامی امور میں مداخلت کو بھی ناقابل قبول سمجھتا ہوں۔ اسی عدلیہ نے چار مارشل لاﺅں کو جائز قرار دیا اور اسی عدلیہ نے ریکوڈک اور اورنج ٹرین سمیت درجنوں پراجیکٹ پر سٹے آرڈر دے کر ملک کو بھاری مالی نقصان پہنچایا ۔ مارشل لاءکو آئین میں ترامیم کی شرمناک اجازت بھی دی۔ 5جولائی 1977ءآج تک ہمارے ملک سیاست ،معیشت اور کلچر پر ہاوی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی شاہنواز مرتضیٰ بے نظیر ،نظیر عباسی، رزاق جھرنا کو شہید کیا جا چکا ہے۔ رفیق احمد شیخ ، جہانگیر بدر، شیخ محمد رشید ، خواجہ معین الدین ، مسرور احسن ، راشد ربانی ، خواجہ آصف بٹ ، یٰسین آزاد، اسلم گرداس پوری ، اسلم لودھیانوی ، ملک منظور ایڈوکیٹ ، میاں منیر احمد ، رانا عیش بہادر اور اسلم گل جیسے لیڈر اپنے حصے کا ظلم اور قید کاٹ چکے ہیں۔ آصف زرادی بے گناہ تیرہ سال قید میں رہ چکے ہیں۔ اب وقت ہے نئی نسل اپنے ماضی سے آگاہ ہو اور مستقبل میں ایسی سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں سے وابسطہ ہوں جو وطن عزیز کو غیر ملکی آقاﺅں اور ملکی سطح پر عوام اور پیپلز پارٹی دشمنوں کے مقابلے اور فتح کا عظم رکھتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش ہمیشہ ناکام رہیں گی
Jul 06, 2023