آئی ایم ایف کاقرض ، ملکی معیشت پر مزید بوجھ

Jul 06, 2023

ضیاءالرحمن ضیا

آئی ایم ایف کاقرض ، ملکی معیشت پر مزید بوجھ
ضیاءالرحمان ضیائ
 حالیہ دنوں حکومت قوم کو خوشخبریاں سنا رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر قرض کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے خود کہا ہے کہ یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہے کوشش کریں گے کہ اس سے جان چھڑائیںا ور انہوںنے دعا بھی کی کہ خدا کرے آئندہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔ آئی ایم ایف کا قرض ملکی معیشت پر بوجھ کو کم کرنے کی بجائے مزید بڑھاتا ہے گو کہ وقتی طور پر بوجھ کم ہوتا ہوا اور معیشت مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آئی ایم ایف سود پر قرض دیتا ہے اور سودی قرض کا بہت بڑا نقصان ہی بھی ہے کہ قرض لینے والا باآسانی اس سے نکل نہیں پاتا اور وہ سود در سود کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ 
 آئی ایم ایف قرض بھی ایسے دیتا ہے جیسے بھیک دے رہا ہو۔ اس کے لیے ریاستوں کو اپنی آزادی و خودمختاری تک کا سودا کرنا پڑتا ہے۔ معاشی لحاظ سے کمزور ممالک ایک بار اس کے چنگل میں پھنس جائیں پھر ان کے لیے نکلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔آئی ایم ایف کی پالیسیاں بھی ایسی ہیں جن کے ذریعے وہ قرض لینے والے ممالک کو جکڑ لیتا ہے۔ آئی ایم ایف ان ممالک کو اتنا ہی قرض فراہم کرتا ہے جس سے وہ بمشکل بیرونی قرضوں پر لگنے والا سود ہی ادا کر پاتے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنے دیگر اخراجات کے لیے پھر قرض لینا پڑتا ہے یوں غریب ممالک آئی ایم ایف اور اس کے پس پردہ امریکہ وغیرہ کے زیر اثر رہتے ہیں اور ان کی ہر شرط ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی غلطی کی وہ معاشی طورپر تباہ ہو گئے۔ 
 غریب ممالک کے لیے آئی ایم ایف کے قرض زہر قاتل سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے جو آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی آزادی ، خود مختاری اور سلامتی داو¿ پر لگا چکا ہے۔ پاکستان نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط مانیں اور قرض لے کر معیشت کی تباہی کا تحفہ حاصل کر لیا۔ پاکستان کی ہر حکومت نے ان قرضوں کا مزہ چکھا ہے۔ ہماری اپنی پالیسیاں ہی ایسی ہیں کہ حکومتوں کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہمارے حکمران اپنی سیاست چمکانے کے لیے عوام کو وقتی اور عارضی فائدے دینے پر بہت توجہ دیتے ہیں وہ انہیں مستقل طور پر اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہونے دیتے۔ جو معاشرے اور ریاست دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ 
 آئی ایم ایف ہی مہنگائی کرنے کے لیے حکومت پر دباو ڈالتا ہے کیونکہ وہ جب قرض دیتا ہے تو کوشش یہ کرتا ہے کہ پہلے ملک کو اس قابل بنائے کہ وہ قرض واپس بھی کر سکے ، جس کے لیے ملکی خزانے کو بھرنا ضروری ہوتا ہے اور ملکی خزانہ ٹیکس لگا کر بھرا جاتا ہے جس کے لیے عوام پر بھاری ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں۔ پھر وہ تمام خزانہ آئی ایم ایف کے قرض واپس کرنے اور سیاستدانوں کی عیاشیوں میں لٹا دیا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے ملک کو سراسر خسارہ ہی ہوتا ہے۔ 
 آئی ایم ایف تو امریکی وائسرائے ہے اس کے پاس جانے والے ممالک بالواسطہ طور پر امریکہ کے غلام بن جاتے ہیں پھر آئی ایم ایف کے ذریعے وہ ممالک کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہماری حکومتیں بے دھڑک آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتی ہیں حالانکہ انہیں اس سے گریز کرنا چاہیے اور ماہرین کو بٹھا کر تھوڑا اس بات پر غور کر لینا چاہیے کہ اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں تو ہمارے پاس معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے کون سا راستہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین سینکڑوں راستے بتا دیں گے کیونکہ پوری دنیا کی معیشت آئی ایم ایف پر نہیں چل رہی بلکہ اس کے لیے دیگر راستے اختیار کیے جاتے ہیں۔
 وزیراعظم صاحب آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی دعائیں مانگ رہے ہیں اور ساتھ ہی ترکیہ اور بھارت کی مثال بھی دے رہے ہیں کہ ہمسایہ ملک 1991کے بعد جبکہ ترکیہ2007کے بعد آئی ایم ایف کے پاس نہیں گیا۔ ہمیں بھی آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کے لیے معاشی مضبوطی کے لیے کام کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی یاد رکھیں ، لوگ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا تو خوشحالی آ جائے گی لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے سود پر قرض ملا ہے ، ملکی معیشت سود پر چل رہی ہے ، سٹاک ایکسچینج وغیرہ سب سود اور جوا ہے تو ملک میں خوشحالی کیسے آ سکتی ہے جب ہم نے خدا کو ناراض کیا ہوا ہے اور اس سے اعلان جنگ کر رکھا ہے تو کبھی خوشحال نہیں ہو سکتے ، خوشحالی کے لیے سودی نظام کا خاتمہ بھی نہایت ضروری ہے۔ 

مزیدخبریں