وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے تمام رکن ممالک کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کے ساتھ پورے عزم سے باہم مل کر لڑنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز شنگھائی تعاون تنظیم کے دہلی میں منعقدہ سربراہی ورچوئل اجلاس میں ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ کنکٹیویٹی کو جدید عالمی معیشت میں کلیدی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اس کے فروغ کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول سی پیک معاشی خوشحالی، امن اور استحکام کے لئے گیم چینجر ثابت ہو گا۔ ترقی یافتہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لئے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنی چاہیے۔ پاکستان رواں سال کے اختتام پر مواصلات سے متعلق ایس سی او اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا کو معاشی اور سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس تنظیم کو امن و استحکام، سلامتی اور ترقی کے حوالے سے اپنا کردار بڑھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے تدارک کی کوششوں میں ڈپلومیٹک پوائنٹ سکورنگ نہیں ہونی چاہیے اور ریاستی دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کی اس فورم پر مذمت کی جانی چاہیے کیونکہ کسی بھی دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے سیاسی ایجنڈے کے تحت مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی بھی مذمت کی اور باور کرایا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ خطے میں پائیدار امن تنظیم کے تمام رکن ممالک کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی مدد کے لئے آگے بڑھے کیونکہ پرامن اور مستحکم افغانستان خطے میں معاشی استحکام کا باعث بنے گا۔ اسی طرح عالمی مسائل کے حل کے لئے عالمی یکجہتی کی ضرورت ہے۔
شنگھائی تنظیم کے سربراہ اجلاس میں 14 ، اہم فیصلوں کی منظوری دی گئی جن میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کی طرف لے جانے والی بنیاد پرستی کے انسداد کی حکمت عملی، ڈیجیٹل تبدیلی میں تعاون اور ایس سی او کی اقتصادی ترقی کی حکمتِ عملی پر دو مشترکہ بیانات بھی شامل ہیں۔ شنگھائی تنظیم کے اس اجلاس میں ایران کو تنظیم کی مکمل رکنیت دینے کی منظوری دی گئی اور تنظیم کے اگلے اجلاس تک بیلاروس کی مکمل رکنیت کے عمل کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے تنظیم کے منشور میں وضع کردہ اصولوں اور مقاصد کے حصول کے لئے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ تنظیم کے جاری کردہ اعلامیہ نئی دہلی میں مشترکہ مفاد کے سٹریٹجک اور جغرافیائی سیاسی مسائل پر ایس سی او کے رکن ممالک کے اجتماعی موقف کو واضح کیا گیا ہے۔ اس اعلامیہ کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان نے تنظیم کے رکن ممالک پر اس امر پر زور دیا کہ ان تمام لوگوں کو جو غاصبانہ قبضہ، نسل پرستی اور قوم پرستی بالخصوص اسلاموفوبیا کا شکار ہیں، ان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی ضمانت فراہم کی جائے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام ایک علاقائی تعاون تنظیم کے طور پر 22 سال قبل 2001 ءکو عمل میں آیا تھا۔ اس تنظیم کے رکن ممالک میں چین، بھارت، پاکستان، روس، قازکستان، کرغیرستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں موجودہ اجلاس میں ایران کو بھی تنظیم کا مستقل رکن بنایا گیا اور بیلاروس کو آئندہ سال مستقل رکنیت دینے کا عندیہ دیا گیا۔ اس طرح جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیاءاور برصغیر میں شامل تقریباً تمام اہم ممالک اس تنظیم کے رکن ہیں جس کے قیام کا بنیادی مقصد علاقائی امن و استحکام اور اقتصادی ترقی و خوشحالی کے لئے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانا اور اس خطے کے ممالک کے لئے عالمی منڈیوں تک تجارت کے راستے کھولنا ہے مگر تنظیم کے رکن ممالک کے باہمی تنازعات ہی اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان کی موجودگی میں اس خطہ کو امن و استحکام کا گہوارہ بنانے کا تصور ماند پڑ جاتا ہے۔ بالخصوص بھارت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر چین اور پاکستان کے ساتھ الجھاﺅ اور مخاصمت کا سلسلہ گزشتہ سات سات دہائیوں سے جاری رکھا ہوا ہے۔
اس تنظیم کا بنیادی مقصد پرامن و خوشحال معاشرے کے لئے دہشت گردی کے تدارک کے لئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے کا ہے مگر بھارتی لیڈر شپ بالخصوص موجودہ مودی سرکار نے بھارت کو سیکولر سٹیٹ کے بجائے ہندو انتہاءپسند ریاست کا سٹیٹس دلانے میں ہی فخر محسوس کیا ہے چنانچہ سرکاری سرپرستی میں فروغ پانے والی ہندو انتہاءپسندی ہی اس خطے میں مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کے فروغ کا باعث بن رہی ہے۔ اس فضا میں علاقائی امن و استحکام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جبکہ مسلمانوں سمیت تمام بھارتی اقلیتیں عملاً راندہ درگاہ بن چکی ہیں۔ اسی طرح بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اس کی قیادتوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ پاکستان کے ساتھ تو اس کی تشکیل کے وقت سے ہی بھارت نے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور اس کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت وادی کشمیر پر اپنا ناجائز اور غیر قانونی تسلط جما لیا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدہ کے باوجود نہ صرف اب تک اس نے برقرار رکھا ہوا ہے بلکہ اب مقبوضہ وادی کو اس نے اپنی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا لیا ہے جس کے باعث پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی انتہاءتک جا پہنچی ہے۔ اسی طرح بھارت نے 1962ءمیں چین کے علاقے اروناچل پردیش پر غاصبانہ تسلط جمانے کی کوشش کی مگر چینی فوجوں کے ہاتھوں اسے منہہ کی کھانا پڑی۔ دو سال قبل بھارت نے لداخ کے راستے دوبارہ اپنی فوجیں اروناچل پردیش میں داخل کرنے کی سازش کی اور اسے پھر عبرتناک ہزیمت اٹھانا پڑی۔ بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کے ناطے دہشت گردی کے سوتے بھارتی سرزمین سے ہی پھوٹتے ہیں اور پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی دہشت گردی کی 85 فیصد وارداتوں میں بھارت کا ہاتھ شامل رہا ہے جو افغانستان میں دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان بھجواتا رہتا ہے۔
اس تناظر میں بھارت کے جنونی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کے موثر اقدامات اٹھائے بغیر شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد کو کیسے کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ روٹیشن کے حساب سے اس بار بھارت ہی شنگھائی تنظیم کا صدر تھا جس کی میزبانی میں تنظیم کا سربراہی اجلاس ہوا اور بھارتی وزیر اعظم مودی نے میزبانی کے آداب کو پس پشت ڈالتے ہوئے خطہ میں ہونے والی دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور تنظیم کے رکن ممالک کو یہ لیکچر دیا کہ دہشت گردی کے تدارک کے لئے کوئی دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تنظیم کے رکن ممالک کے مابین تعاون اور علاقائی ترقی و استحکام، دہشت گردی کے تدارک کی کوششوں کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے جبکہ دہشت گردی کو فروغ دینے میں بھارتی جنونیت اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا بنیادی عمل دخل ہے اور اسی تناظر میں امریکی جریدے کی تحقیقاتی رپورٹ میں بھارت کو نمبر ون عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ اگر بھارت کے ان عزائم کے آگے بند باندھنے میں شنگھائی تعاون تنظیم ناکام رہی تو اس کی حیثیت نشتند، گفتند، خوردند، برخاستند والے فورم سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی۔