2 کم عمر پاکستانی بچوں نے 9365 فٹ بلند چوٹی سر کر لی
کہاں کہاں کس کس پاکستانی کے عزم و ہمت کی تعریف کی جائے ان کے بلند حوصلوں کی داد جائے وہی اقبال والی”ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی“ بات یاد آ جاتی ہے بڑے تو بڑے اب ہمارے چھوٹے کم عمر بچے بھی ایسے کاموں میں نام کما رہے ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ جی ہاں کھیلوں کے مید ان سے لے کر کوہ پیمانی کے سخت جان کام تک ہمارے نو عمر کھلاڑی عزم و ہمت کی نئی نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں جس پر ساری قوم کو فخر ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی ریکارڈ دو پاکستان نو عمر بچوں نے قائم کیا۔8 سالہ لبیک شگری اور 12 سالہ دانش سدپارہ نے نہایت مشکل مراحل طے کرتے ہوئے 9 ہزار 3 سو 65 فٹ بلند چوٹی خسرو کنگ سر کرکے اپنے ملک کا اپنے والدین کا اور اپنا نام روشن کیا۔ انکے اس کارنامے پر پوری قوم ان کو مبارکباد پیش کرتی ہے۔ اس عمر میں تو بچے اندھیرے سے ڈرتے ہیں، جنوں پریوں کی کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر دلچسپی کارٹوں موویز میں ہوتی ہے۔ وہ ابھی تک پوری طرح کتاب قلم اور بستے کا بوجھ نہیں اٹھا پاتے، انہیں تنہا سکول بھیجتے ہوئے والدین ڈرتے ہیں گھر والے ان کی حفاظت اور درازی عمر کی دعائیں کرتے ہیں اس عمر میں ان دو کوہ پیماﺅں کی یہ اٹھان ہے تو آگے کیا ہوگا۔ اگر ان کی تعلیم ساتھ ساتھ ان کے شوق کی بھی سرکاری سطح پر سرپرستی ہو تو یہ بچے آگے چل کر بڑے کوہ پیما بن سکتے ہیں اور ہمارے دیگر بچوں میں بھی کوہ پیمائی جیسے سخت جان کھیل کا شوق پیدا کر سکتے ہیں بس ہماری حکومتوں کو یاد رکھنا ہو کہ کھیل کے میدان آباد ہوں تو ہسپتال ویران ہو جاتے ہیں۔ منفی سرگرمیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
٭٭٭٭
ترکی میں دلہن کو ساڑھے چار کلو سونا اور دولہا کو 6 کروڑ کی سلامی
معلوم نہیں ترکی میں اقتصادی بحران کے باوجود سونا سستا ہے یا نہیں یا پھر ہو سکتا ہے کہ دولہا اور دلہن کا تعلق امیر کبیر گھرانے سے ہو ہمارے ہاں بھی دولت مند لوگ جب اپنی بیٹیاں بیاہتے ہیں تو انہیں سونے سے لاد دیتے ہیں۔ اگر لڑکی دھان پان سی ہو تو وہ سونے کے وزن سے جھکی جاتی ہے کیونکہ وہ اتنا بوجھ اٹھانے کی عادی نہیں ہوتیں۔ اس صاحب ثروت طبقے میں تو خواتین لباس کا بوجھ بھی کم سے کم اٹھانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اب چاہے فیشن کے نام ہو یا اپنی امارات دکھانے کے شوق میں۔ دولہے میاں کو سونے سے نہ سہی مگر نوٹوں سے ضرور تولا جاتا ہے۔ سلامیوں اور تحائف کے نام پر گاڑی، بنگلہ، بنک بیلنس، جائیداد اتنی دی جاتی ہے کہ موصوف کی آنکھیں اور سر جھک جاتا ہے۔ بھارت میں تو دولہے کو بھی سونا پہنایا جاتا ہے شکر ہے اسلام میں مرد کے لیے سونا پہنا منع ہے۔ اس لئے اس پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا۔ حالانکہ اسلام میں جہیز ،دکھاوا، اسراف ،لڑکی والوں کی طرف سے بارات کا کھانا بھی منع ہے۔ مگر حیرت ہے اس طرف کوئی ”توجہ نہیں دیتا۔ شادی بیاہ پر اتنا خرچہ کیا جاتا ہے کہ اس میں کئی غریب لڑکیوں کی شادی ہو سکتی ہے۔ عربوں میں بھی دولہن کو سونے سے لادنے کی رسم موجود ہے وہ بھی شادی کے موقع پر دلہن کو سونے کی گڑیا بنا دیتے ہیں۔ وہاں تو چلیں دولت کی ریل پیل ہے ہمارے ہاں تو وہ بھی نہیں۔ ہم تو پیدا ہوتے ہی قرضوں کے دلدل میں گردن تک دھنسے ہوتے ہیں بہرحال ترک ہو یا عرب، افغان ہوں یا افریقن، پاکستانی ہوں یا ایرانی، مسلمانوں کو ہر کام میں اعتدال کا درس ملتا ہے۔ اسلام فضول خرچی اور ایسے رسومات سے منع کرتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو۔ اس لئے نکاح کو سادہ اور آسان بنائیں، تب جا کر زنا اور دیگر جرائم خود بخود کم ہو جائیں گے....
٭٭٭٭
بھارت نے افغان طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیئے، پاکستان کی ساڑھے چار ہزار ویزوں کی پیشکش
اس فیصلے سے بھارت کا مسلمانوں کے خلاف خبث باطن کھل کر سامنے آتا ہے ویسے تو افغانستان والے ہمیشہ بھارت کی محبت میں گرفتار رہتے ہیں۔ انہیں بھارتی دوستی اور ماحول اچھا لگتا ہے۔ بھارت بھی پاکستان سے بعض کی وجہ سے ہمیشہ افغانستان کی قربت کا خواہاں رہتا ہے اس سے اچھے تعلقات بنائے رکھتا ہے ،تھوڑی بہت مالی امداد بھی کرتا ہے وہاں تعمیر و ترقیاتی کاموں کی آڑ مں اپنے جاسوس بھیجتا ہے جو وہاں پاکستان مخالف گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہتے ہیں ورنہ بھارت کو کسی مسلم ملک سے نہ پہلے محبت تھی نہ آئندہ ہو سکتی ہے۔ اب جب سے بھارت میں انتہا پسند ہندو جنونیوں کی حکومت آئی ہے اس کے بعد بھارت میں مسلمانوں کی حالت دیکھ لیں بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ مگر شاید افغانستان والے شاہ رخ خان، سلمان خان، سیف خان اور عامر خان کے ناموں سے متاثر ہیں کہ وہاں خانوں یعنی پٹھانوں کی بہت عزت ہے جبکہ یہ سب خان وہاں اس محفوظ ہیں کہ ان کی بیویاں ہندو ہیں۔ افغان، بھارت دوستی کی وجہ سے وہاں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں افغان طبقہ کو داخلوں کی روایت بھی پرانی ہے عرصہ دراز سے افغان طلبہ بھارت میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے مگر اب یہ رعایت بھی بھارتی ہندو توا کے حامیوں سے برداشت نہیں ہو رہی اور مودی سرکار نے افغان طلبہ کے بھارت میں ویزے منسوخ کر دیئے ہیں اس کے جواب میں افغان حکومت تو خاموش ہے مگر پاکستان نے افغان حکومت کو ساڑھے چار ہزار افغان طلبہ کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے ویزوں کی پیش کش کی ہے۔ امید ہے اس طرح نئی نسل میں فاصلے کم ہوں گے اور قربتیں بڑھیں گی ویسے بھی افغانستان کی نئی نسل کے لاکھوں بچے پاکستان میں ہی پیدا ہوئے اور یہاں ہی مدرسوں سکولوں اور کالجز میں لکھ پڑھ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
مون سون کی پہلی بارش اور لوڈشیڈنگ کا عذاب
جب تک ماڈرن لائف سٹائل ہمارے معاشرے میں زیادہ مستحکم نہیں تھا۔ دیہاتوں میں ہی نہیں شہر کے بہت سے گھرانوں میں ”حقے“ کا استعمال عام تھا شہر میں متعدد دکانوں پر حقہ کے لوازمات دستیاب تھے۔ حقہ سازی کی صنعت سے ہزاروں افراد کا روزگار جڑا ہوا تھا۔ قسم قسم کے تمباکو سادہ اور خوشبودار دستیاب تھے پھر جدید دور آیا تو حقہ ،دستار اور دھوتی آہستہ آہستہ متروک ہونے لگی۔ اس دور میں ایک پہیلی زبان زد عام تھی”اوپر آگ اور نیچے پانی ایک پہیلی بوجھو ناں۔ اس سے مراد یہی چلم یعنی حقہ ہوتا تھا اس کے اوپر ٹوپی میں تمباکو جلتا تھا اور نیچے مٹی یا پیتل کی صراحی میں پانی ہوتا تھا اب جدید دور میں جن بچوں نے حقہ دیکھا ہی نہیں وہ بھلا یہ پہیلی کہاں بوجھ سکتے ہیں ہاں اب جو یہ شیشے کی وباءامرا طبقے میں پھیلی ہے متوسط طبقہ بھی پیسے خرچ کرکے شیشہ کیفوں میں رنگ برنگے کلر اور فلیورڈ تمباکو والے حقے پینے جاتا ہے۔ وہ البتہ اس پہیلی تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ پہیلی اس وقت اس لئے یاد آتی کہ موسم برسات کی پہلی بارش نے ہی لوگوں کے چودہ طبق روشن کر دیئے اوپر آسمان پر سورج کی حدت اور نیچے بارش کا جمع شدہ پانی دونوں مل کر دماغ کو کھولا رہے ہیں گزشتہ روز مون سون جسے ہم ساون بھادوں بھی کہتے ہیں کی پہلی سلامی تھی جسے لوڈشیڈنگ نے مل کرسہہ آتشہ بنا دیا۔ اوپر آگ نیچے پانی اور درمیان(فضا) میں حبس نے وہ قیامت ڈھائی کہ حقیقت میں”وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ" کا منظر ہر جگہ نظر آ رہا تھا....
٭٭٭