حکمران اپنی عیاشیاں ختم کریں

رحمت خان وردگ‘ مرکزی صدر‘ تحریک استقلال
حکمران اپنی عیاشیاں ختم کریں
ہمیشہ سے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر پالیسیاں اور وفاقی و صوبائی بجٹ بنائے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف ہمیشہ کیوں غریب عوام پر گیس‘ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت ایسے مطالبے کرتی ہے جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی ہے اور حکمرانوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آئی ایم ایف نے کبھی بھی یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا کہ قرض کے اجراءسے قبل وفاق میں وزیروں کی تعداد 8-10سے زیادہ نہ ہو۔ صوبوں میں بھی وزیروں کی تعداد انتہائی محدود کی جائے۔ غیر منتخب مشیروں کی فوج پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟ آئی ایم ایف کیوں نہیں کہتا کہ 17گریڈ اور اس سے اوپر کے افسران 800سی سی کی ایک گاڑی اور محدود پیٹرول کوٹہ مقرر کیا جائے؟ آئی ایم ایف تمام شعبوں میں اعلیٰ افسران کی تنخواہوں کی زیادہ سے زیادہ حد 5لاکھ مقرر کیوں نہیں کراتا؟ آئی ایم ایف کیوں نہیں کہتا کہ یہ سیکریٹری‘ ڈپٹی سیکریٹری‘ جوائنٹ سیکریٹری اور ایسی سینکڑوں غیر ضروری اسامیاں ختم کرو اور صرف ضرورت مطابق چند سیکریٹریز سے کام چلاو¿۔آئی ایم ایف غیر ضروری اخراجات کی مدمیں بھاری رقوم کے ضیاع اور حکمرانوں کی عیاشیوں پر پابندی کیوں نہیں لگاتا؟ ہمارے ملک کو اصل میں تو حکمرانوں اور ہر شعبے کی بیورو کریسی کی عیاشیوں نے کنگال کیا ہے۔
عوام کا کیا قصور ہے؟ یہی قصور ہے کہ الیکشن میں جلسے جلوسوں اور الیکشن مہم میں اپنا وقت اور جان تک دے دیتے ہیں۔ ووٹ دینے کے لئے قطاروں میں لگتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ایندھن کے طور پر ہر وقت حاضر خدمت رہتے ہیں۔ عوام تو چند ہزار بجلی کا بل ادا نہ کریں تو ان کا بجلی کا کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے لیکن امیر کبھی بھی ووٹ دینے کے لئے نہ تو قطاروں میں لگتا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے مفادات کے تحفظ کے لئے ایندھن کے طور پر اپنا سب کچھ نچھاور کرتا ہے بلکہ اپنی عالیشیاں رہائش گاہوں میں بیٹھ کر ووٹنگ کے عمل کا ٹیلی ویڑن پر جائزہ لیتا رہتا ہے لیکن اس کے بعد ووٹ لیکر آنے والے اس غریب کے لئے ہمیشہ سے ظالم کا کردار ادا کرتے آئے ہیں اور امیر کو امیر تر بنایا گیا۔ ہمیشہ سے سیاسی جماعتوں نے صرف نعرے کی حد تک عوام کو سبز باغ دکھائے ہیں اور عملی طور پر کرنے کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ 
اب خبر آئی ہے کہ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد ایئرپورٹ رہن رکھ کر سکوک بانڈ جاری کرکے بھاری رقوم کے حصول کے لئے حکومت اقدامات کررہی ہے۔ اب تک لئے جانے والے قرضے سے عوام کو کیا سہولتیں ملیں؟ تمام لئے گئے قرضے تو حکمرانوں اور بیورو کریسی کی عیاشیاں جاری رکھنے پر خرچ ہوئے ہیں اور مزیدآئی ایم ایف کا قرض و سکوک بانڈز کا اجراءبھی انہیں عیاشیوں کو جاری رکھنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ قومی اثاثے گروی رکھ کر اپنی شہہ خرچیاں جاری رکھنا ملک کے ساتھ ظلم ہے۔ ملک کے ساتھ اصل وفاداری تو یہ ہے کہ آپ اپنے ذاتی اثاثے فروخت کرکے ملکی خزانے میں جمع کریں اور حکمران طبقے کو حاصل مراعات و سہولیات کو تمام ممکنہ حد تک کم کریں۔ آپ اعلان کریں کہ ملک بھر میں ہر شعبے میں 5لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے تمام افراد کی تنخواہ اس وقت تک 5لاکھ ہوگی جب تک کہ ملک کا قرضہ ختم نہیں ہوجاتا۔ آپ اعلان کریں کہ تمام سرکاری افسران کو 800سی سی گاڑی اور محدود پیٹرول کی سہولت ملے گی اور اس کے علاوہ لامحدود سہولیات‘ مفت پیٹرول‘ مفت بجلی اور نوکر چاکر وغیرہ کی تمام سہولیات اس وقت تک مکمل طور پر ختم کردی گئی ہیں جب تک کہ ملک بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے تمام قرضے بے باک نہیں کرلیتا۔ پھر جو کوئی بھی اس پر اعتراض کرے گا تو عوام کے سامنے بے نقاب ہوجائے گا کہ اسے ملک سے کس قدر ہمدردی ہے؟
سرکاری دفاتر اور تمام شعبوں کے بڑے افسران کی سرکاری خرچ پر طرز رہائش دیکھیں اور ملک کے مالی حالات دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ملک کا احساس کرے اور رضاکارانہ طور پر ملک کو قرض کی دلدل سے نکالنے کے لئے کم از کم سہولیات کی فراہمی پر اکتفا کرنے کا اعلان کرے۔ آج تک آنے والے حکمرانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں آیا جو سرکاری غیر ضروری اخراجات اور شہہ خرچیوں پر سخت ترین پابندی عائد کرے۔ زبانی جمع خرچ سے عام آدمی سے ووٹ لینے کے بعد حکمران اور بیورو کریسی کی عیاشی کے لئے لیا گیا قرض اور اس کا سود اتارنے کے لئے عوام پر ہر طرح کی معاشی سختیاں بڑھادی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی عیاشیوں کے اخراجات پورے نہیں ہوپاتے اور پھر مزید قرض لیا جاتا ہے اور ان کی سود سمیت ادائیگی کے لئے عوام پر مزید بوجھ میں مسلسل اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہی سلسلہ کئی عشروں سے چل رہا ہے۔ ابھی چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں اضافے کا بل بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اسی طرح سابق صدور سمیت ریٹائرڈ سرکاری اشرافیہ کی پنشن اور مراعات کی تفصیلات بھی حیران کن ہیں۔
 اب تو عوام کو بھی اس متعلق سوچ بچار کرکے ایسی جماعت کو ووٹ دینا چاہئے جو اپنے منشور میں حکمران طبقے اور بیورو کریسی کی عیاشیاں ختم کرنے اور ان کی مراعات و سہولیات کی انقلابی کمی کا وعدہ اور ریٹائرڈ اشرافیہ کو حاصل مراعات و سہولیات میں اس وقت تک کمی کہ جب تک ملک قرض سے نجات حاصل نہیں کرلیتا۔ اگر اب بھی اس کے علاوہ کسی نعرے پر کوئی بھی سیاسی جماعت سیاست کرنے آئے اور ووٹ کی طلب گار ہو تو پھر اس کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی عام غریب آدمی کی حالت یقینی طور پر مزید بدترین ہی ہوتی چلی جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن