نائلہ خاور
سب کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے بعد ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے اور یہ کہ اس معاہدے سے حاصل کی گئی رقم سے افراطِ زر کنٹرول ہو سکے گا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے گی ملک مجموعی طور پر ترقی کرے گا لیکن کیا زمینی حقائق بھی یہی کہتے ہیں یا یہ سب سبز باغ ہیں جو عوام کو دکھائے جا رہے ہیں. کیونکہ جب یہ لوگ حکومتوں کا حصہ نہیں ہوتے تو کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا ملک سے غداری ہے اور جب خود حکومتی بنچز پر آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے۔
جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ IMF چاہتا ہے ہم لانگ رینج میزائل پروگرام رول بیک کر لیں۔ کیونکر اس سے بھارت اور اسرائیل کو خطرہ ہے مگر ہم اپنی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور جب معاہدہ طے پا جاتا ہے تو کہتے ہیں ”مبارک ہو....ہم بچ گئے“ اب کوئی اسحاق ڈار صاحب سے یہ پوچھے کہ اب وہ لانگ رینج میزائل پروگرام کا کیا بنا....اور ملک کی سالمیت پر سمجھوتہ کہاں کھڑا ہے....
خیر چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ تین ارب ڈالر کا سٹاف لیول معاہدہ ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے اشد ضروری تھا مگر اس سے کیا واقعی معیشت کی بحالی ممکن ہو سکے گی۔ مہنگائی پر قابو پایا جا سکے گا۔ پسے ہوئے عوام کو کوئی ریلیف ملے گا؟۔
اگر ایسا ہو سکے تو یہ بیل آﺅٹ پیکج کہلائے بھی مگر جب ہونا اس کے الٹ ہے۔ مہنگائی کی ہوشربائی میں مزید اضافہ ہونا ہے ٹیکسز کے عفریت نازل ہونے ہیں۔ ڈالر مزید مہنگا ہونا ہے تو کہاں کی معیشت کی بحالی اور کہاں کا عوام کا ریلیف....
بلکہ ہو تو یہ رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے اس سٹینڈ بائی پروگرام کے تخت تین ارب ڈالر کے قرضے اور امریکہ اور دیگر ممالک سے لی گئی 70 ارب ڈالر کی مجموعی امداد کے باوجود عالمی مالیاتی اداروں کی ریٹنگ ایجنسیز ”موڈیز“ اور ”فچ“ کو جولائی میں شروع ہونے والے نئے مالی سال میں پاکستان کی طرف سے 25 ارب ڈالر قرضے کی واپسی کھٹائی میں پڑی نظر آ رہی ہے۔
حالانکہ کہا یہی جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ہمیں اسلامی ترقیاتی بنک اور ورلڈ بنک سے بھی پیسے مل جائیں گے مگر آئی ایم ایف کی اصل منظوری تو ابھی جولائی کے وسط میں ہو گی کیونکہ سٹاف لیول معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے جو اس پر جولائی کے وسط میں غور کرے گا۔
اب آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں سے ابتدائی چند س±ن لیجئے....
ٹیکسز کی شرح کو بڑھانا....سود کی شرح کو ریکارڈ بلندی تک لے جانا اور اخراجات میں تخفیف کرنا۔
یہ سخت ترین شرائط ابھی ابتدائیہ ہیں مطلب ٹریلر....مطلب فلم تو ابھی باقی ہے میرے دوست....
قدرتی طور پر ٹیکسز لگیں گے، ڈالر اوپر جائے گا تو مہنگائی مزید بڑھے گی کیونکہ پارلیمان نے تو دو سو سوا دو سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز کی منظوری دے دی ہے۔
لیوی ٹیکس 50 روپے سے بڑھا کر 55 روپے کر دیا گیا ہے۔
آئندہ تین ماہ تک پٹرولیم چارجز 60 روپے تک بڑھ جائیں گے۔ بجلی کا یونٹ چھ سے بارہ روپے تک مزید مہنگا ہو گا۔ ڈار صاحب نے نوید سنا دی ہے کہ گیس اور بجلی کے نرخ بڑھیں گے۔
مطلب سارا بوجھ غریب پسے ہوئے سسکتے عوام کے کندھوں پر ہی آئے گا۔ اشرافیہ کو کیا فرق پڑتا ہے ان کی کون سی مراعات میں کمی آنی ہے۔ یا تنخوائیں گھٹ جانی ہیں۔ شاہوں کی شاہی تو سلامت رہے گی۔ مرے گا تو غریب جو پھر خودکشیاں کر لے گا۔ مہنگائی اور بے روزگاری معاشرے میں فرسٹریشن اور بگاڑ پیدا کرے گی۔ سٹریٹ کرائم بڑھیں گے۔ بھوکے بچوں کا رونا باپ سے جرم کروائے گا۔
مائیں اپنے جگر گوشوں کو بیچنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ مگر مبارک ہو....
غریب کی موت پر........حاکم کا جشن ہے۔
جشن
Jul 06, 2023