اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

ندیم اسلام سلہری 
شہر اقبال کی زرخیز مٹی نے جہاں علامہ محمد اقبال، فیض احمد فیض اور اصغر سودوائی جیسے گوہر نایاب اور نابغہ روزگار پیدا کیے ہیں وہیں اکیسویں صدی کا سیالکوٹ سپوت شہر اقبال، تحریک نفاذ اُردو کے روح رواں فکر اقبال کے حقیقی عاشق فرزند اُردو سیّد روح الامین پر بھی نازاں ہوگا۔
سیّد روح الامین کے آباﺅ اجداد کا تعلق (پیجوکے) تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ سے ہے۔ آپ کے والد قبلہ سیّد کرامت علی کا شمار نیک اور برگزیدہ بندوں میں ہوتا ہے اور آپ کی تربیت آپ کی والدہ سیّدہ شمیم اختر نے کی جو کہ ایک صالحہ انتہائی نیک، مشفق اور برگزیدہ خاتون تھیں۔ سیّد روح الامین صاحب بتاتے ہیں ماں جی نے میری پیدائش سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے جب یہ آیت پڑھی : ﴾نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاَمِینُ ﴿
تو یہ طے کر لیا کہ اگر بیٹا ہوا تو پیدائش کے بعد نام روح الامین رکھا جائے گا۔ پیدائش کے چھ ماہ بعد آپ کی والدہ اکلوتی بیٹی ہونے کے ناتے شاہ صاحب کو لے کر میکے گجرات چلی گئیں اور سیّد روح الامین کو آپ کی نانی اماں محترمہ سیّدہ عزت جان نے اپنی جان سے بھی عزیز رکھ کر نازو نعم اور لاڈ و پیار سے پالا۔ سیّد روح الامین صاحب نے بتایا کہ انھوں نے لکھنا شروع کیا تو اپنی نانی سیّدہ عزت جان کے نام پر گجرات میں ”عزت اکادمی“ کے نام سے ادارہ قائم کیا اور ان کی کتابیں ”عزت اکادمی“ سے ہی چھپی ہیں۔
جسٹس جاوید اقبال (فرزند اقبال) جو کسی تعارف کے محتاج نہیں کہ ان کا نام سبھی احترام سے لیتے ہیں۔ سیّد روح الامین کے بارے میں رقم طراز ہیں: ”بانیانِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی ذات و افکار کے دلدادہ ہیں۔ اُن کی محبت اُن کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جناب سیّد روح الامین کی تحریریں نہایت عام فہم اور سادہ ہوتی ہے۔ جن سے عام قاری بھی لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اُن کی تحریروں میں کہیں کہیں جذباتیت کا رنگ بھی نمایاں نظرآتا ہے۔ موصوف اس پر قابوپانا بھی بخوبی جانتے ہیں۔“
پروفیسر فتح محمد ملک لکھتے ہیں: ”سیّد روح الامین ہماری قومی زبان اُردو کے سچے اور پکے عاشق ہیں“۔سیّد روح الامین کی شخصیت اور فن کو ہم کئی زاویوں سے پرکھ سکتے ہیں۔ 
1۔ اقبال شناس۔
2۔ کاروان تحریک نفاذ اُردو کا شہسوار
3۔ اُردو میں لسانیاتی تحقیق و تنقید کا مردِ میدان
4۔ صحافی اور کالم نگار۔
سیّد روح الامین کی زیر نظر کتاب”ادب، صحافت اور معاشرہ“ اس کتاب کے نام کے اندر ہی کئی فکری جہتیں چھپی ہوئی ہیں۔جو ادب محبت، عقیدت، خلوص، انسانی اقدارکے احترام سے عاری ہو اور اس کے پڑھنے سے روح میں طمانیت اور سکون نہ رہے۔ وہ ادب نہیں خرافات کا پلندہ ہے اور جس صحافت سے سچائی، جرات، دیانتداری، تحقیق اور روایات کا انحراف ہو وہ صحافت نہیں کاروبار ہو جاتا ہے جہاں پر لوگوں کی پگڑیوں اور مجبوروں کی عزتوں کے سودے کیے جاتے ہیں۔ وہ زرد صحافت کے زمرے میں آتی ہے۔لیکن اگر ادب اور صحافت دونوں میں توازن ہو اور اخلاقی اقدار و روایات باقی ہوں تو معاشرہ درست سمت میں ترقی کرتا ہے۔ سیّد روح الامین کے ہاں ادب اور صحافت کا ایک حسین سنگم ملتا ہے۔ روح الامین خوشگوار رویوں کا امین ہے اور بددیانتی، لالچ، حرص اور طمع کوسوں دور ہے۔
اقبال کا یہ شاہین اپنے درویشانہ انداز میں صلہ و ستائش سے ماورا کسی ادبی گروپ، ادارہ یا تنظیم کی گروہ بندی سے دور ایک کنج عافیت میں اپنے شب و روز خودی کی بلندی اور اپنی انا و خودداری کی تسکین میں ادب اور صحافت کی آبیاری میں مگن ہے اور روح اقبال کے مطابق : ”آئین جوانمردوں حق گوئی و بیباکی پر گامزن ہے۔“
ڈاکٹر انوار احمد نے اس طرح لکھا ہے: ”اُردو زبان کی خوش نصیبی ہے کہ اسے مولوی عبدالحق، سیّد عبداللہ، فرمان فتح پوری اور فتح محمد ملک کے بعد روح الامین بڑے جوش اور محبت سے اُردو کے علمی زخیرے کی بازیابی اور اسے حسن انتخاب سے مزین کر رہے ہیں“۔
اور میں ذاتی طور پر ڈاکٹر رشید امجد سے مکمل متفق ہوں جو انھوں نے اپنے مضمون اُردو کے دھنک رنگ میں فرمایا ہے: ”سیّد روح الامین ایسے ہی ایک شخص ہیں جو شہرت سے بے نیاز صرف خلوص کی بنیاد پر اُردو کی مسلسل خدمت کیے جا رہے ہیں“۔
سیّد روح الامین سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گھر میں اکیلے بیٹھ کر اُردو کی پرورش و پرداخت میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ نئی نسلوں کا قرض چکانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں: ”سیّد روح الامین اقبال کے شیدائی ہیں۔ نوجوان محقق اور نقاد ہیں۔“۔ اقبال شناسی کا ایک نیا معتبر حوالہ ہیں۔ سیّد روح الامین کی علمی، ادبی اور صحافتی کتابوں پر ایک نظر جو ان کی اقبالیات، اُردو اور کالم نگاری کے مجموعے ہیں اور ان کی اُردو سے محبت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
1۔ اربعین رضویہ۔ چالیس احادیث 1989
2۔ اُردو ہے جسکا نام۔
3۔اردو ایک نام محبت کا
4۔اردو بطور زریعہ تعلیم
5۔ اُردو کے لسانی مسائل
6۔ اُردو لسانیات کے زاویے
7۔ اقبال فکرو فن
8۔ اقبال، شاعری اور فکرو مقام
9۔ پانچ دریا (اقبال کے بارے میں مقالات)
10۔ اُردو کے دھنک رنگ
11۔ طیف نظر (کالموں کا مجموعہ)
12۔ ہماری اُردو ہماراپاکستان
13۔ اُردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
14۔ تجزیئے اور تبصرے
15۔ برسر مطلب (کالموں کا مجموعہ)
16۔ ادب، صحافت اور معاشرہ
17۔ اُردو تاریخ و مسائل
اس کے علاوہ پانچ کتابیں اشاعت کے مراحل میں ہیں اور سیّد روح الامین پر ایم اے اور ایم فل کے کئی مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں سیّد روح الامین کی شخصیت اور فن پر ملک کے نامور ادیب اور نقاد لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔ سیّد روح الامین کی تحریر ان کی شخصیت کی طرح سادہ اور پرکشش ہے کہ قاری کی توجہ کو کھینچ لیتی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی، اقبال شاعری اور فکرو مقام میں رقمطراز ہیں: ”سیّد روح الامین ایک زہین، باصلاحیت اور وسیع المطالعہ نوجوان ادیب ہیں۔“
سیّد روح الامین اُردو کے ساتھ ساتھ شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے بھی سچے عاشق ہیں اور ان کی تحریریں اور اقبال پر مضامین نہ صرف اقبال فہمی کے لیے مفید ہیں بلکہ قاری اور خصوصاً نوجوان نسل اقبال کے شعری و فنی محاسن کے ساتھ ساتھ فکر اقبال سے روشناس ہو سکتی ہے۔ بے شک کلام اقبال سمجھانے والا اس وقت تک بے بس ہے جب تک وہ خود عشق اقبال کا خوگر نہ ہو۔
سیّد روح الامین کی کتاب ”اُردو ہے جسکا نام“ کے بارے میں مایہ ناز محقق اور نقاد ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں : ”سیّد روح الامین صاحب کی حب الوطنی اور علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کتاب میں پاکستان میں اُردو کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔“
سیّد روح الامین ایک کالم نگار کے طور پر بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں اور وہ پچھلے تقریباً پندرہ سال سے پاکستان کے معتبر صحافتی ادارے ”نوائے وقت“ سے منسلک ہیں۔ روح الامین کی ”نوائے وقت“ سے محبت اور مجید نظامی سے وفا ہے کہ انھوں نے کسی اور ادارے سے کبھی وابستگی رکھنے کی کوشش نہ کی۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل اپنے مضمون ”فرزند اُردو“ میں لکھتے ہیں : ”روح الامین صاحب کی ایک نمایاں حیثیت میرے لیے ایک کالم نویس کی ہے جو اگر عام اور روزمرہ کے پیش آمدہ مسائل و موضوعات کو اپنے کالموں کا موضوع بناتے رہے تو شاید انکے کالموں کا ایک حاوی موضوع اُردو زبان کے مسائل و معاملات یا اس کے نفاذ کی تائید و حمایت اور ان معاملات میں قوم کے شعور کو بیدار کرنے یا جھنجھوڑنے پر مرکوز رہتا ہے“۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیّد روح الامین جس رفتار سے لکھ رہے ہیں اور اُردو زبان کے لیے جو شدت اور محبت انکے ہاں موجود ہے تو ایک دن اُردو زبان روح الامین کو اور سیّد روح الامین اُردو زبان کو سرفراز کر دیں گے۔“
سیّد روح الامین ایک درویشانہ اور سادہ مزاج کی شخصیت کے مالک ہیں اور وفاداری انکے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ دوستی میں ایثار و وفا کے پیکر ہیں۔ میں سیّد عدید کے اشعار شامل کرنا چاہوں گا جو انھوں نے سیّد روح الامین اور میری محبت میں لکھ کر بھیجے ہیں۔
عدید راہ وفا میں اس کا گمان بھی ہے یقین جیسا
یہاں پہ جس کو بھی ہے میسر ندیم روح الامین جیسا
میں حسن فطرت کے رنگ سارے کشید کرتا ہوں دوستی سے
وہی حسیں ہے کسی نے جس کو سمجھ لیا ہے حسین جیسا
میں اپنے مضمون کا اختتام سابق چیف جسٹس پاکستان اور ”ارشاد نامہ“ جیسی دلنشیں کتاب کے مصنف جناب جسٹس ارشاد حسن خاں کے اُن الفاظ سے کروں گا جو اُنھوں نے سیّد روح الامین کی محبت میں لکھے ہیں: ” خوش آئند اَمر یہ ہے کہ ایسے محبِ وطن مشاہیر کی کمی نہیں جنھوں نے قومی زبان اُردو کے نفاذ کے لیے زندگیاں وقف کردیں۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق سے شروع ہونے والا یہ جہاد آج بھی جاری ہے اور سیّد روح الامین اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ اُردو کے حوالے سے سیّد روح الامین ایک توانا آواز ہیں۔“
میری خوش بختی ہے کہ میرا ”فرزند اُردو“ روح الامین سے گہرا تعلق ہے کہ میں اُردو کی روح الامین سے دوستی میں حائل نہیں معاون رہنا چاہتا ہوں۔

ای پیپر دی نیشن