ساجد سلطان
chsajidsultan14@gmail.com
گئے دنوں کا قصہ ہے کہ ایک شخص مسجد کے مرکزی دروازے کے قریب ایک کھونٹا گاڑ کے چلا گیا تاکہ سوار سواری باندھ کر نماز ادا کر سکے۔ کچھ دیر گزری تھی کہ ایک اور شخص آیا اور وہ کھونٹا اکھاڑ کر چلا گیا تاکہ اندھیرے میں کوئی نمازی ٹھوکر کھا کر گرے نہیں۔
پھر تیسرا شخص آیا اور اس نے پھر سے مسجد کے صدر دروازے کے قریب ایک کھونٹا گاڑ دیا تاکہ اندھیرے میں کوئی راہگیر اس سے الجھ کے گرے۔ پھر چوتھا بندہ آیا اور وہ کھونٹا اکھاڑ کر چل دیا تاکہ کوئی سوار اس سے سواری نہ باندھ سکے۔
ایک شخص جو ان چاروں لوگوں کو دور سے دیکھ رہا تھا، اس نے پہلے اور تیسرے بندے کے یکساں عمل کی وجہ سے ان کے بارے میں ایک جیسی رائے قائم کی جبکہ دوسرے اور چوتھے اَشخاص کے مماثل مگر پہلے اور تیسرے دونوں افراد کے مخالف عمل کی وجہ سے متضاد رائے بنا لی۔حالانکہ پہلے دونوں اَشخاص کا عمل ایک دوسرے سے الٹ تھا مگر مقصد دونوں کا نیک اور دوسروں کی بھلائی تھی جبکہ دوسرے دونوں رِجال کا عمل پہلے دونوں افراد کے مترادف تھا مگر مقصد اور نیت متضاد اور مبنی بر شرارت۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک پہلے دونوں افراد جزا کے مستَحِق اور دوسرے دونوں سزا کے۔۔۔۔کیونکہ اللہ نیتوں کو جانتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ وسلم کا فرمان ہے کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
استادِ محترم کہا کرتے تھے کہ رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کرو لیکن جب رائے قائم کر لو تو اتنی پختہ و پائیدار ہو کہ تبدیل کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئے۔
میرا کالا قول ہے کہ زندہ لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنا کوئی آسان کام نہیں، زندہ لوگ بدل سکتے ہیں۔
میرے اِس نظریے کو تقویت ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے پہنچائی جس کا قول ہے کہ رائے بدلنا یعنی یو ٹرن لینا لیڈروں کا کام ہوتا ہے۔
اِسی طرح پیپلز پارٹی کے رَہنما آصف علی زرداری کا قول ہے کہ وعدے اور معاہدے قرآن و حدیث تھوڑے ہوتے ہیں کہ جن سے منحرف نہ ہوا جا سکے۔
اپنے وقت سے 200 سال پہلے پیدا ہونے والے لیجنڈری شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا کہ
مِہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وَقت
میں گیا وَقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سَکوں۔
دنیا کے ہر جمہوری نظام میں ہر چار پانچ سال بعد رائے دہندگان کو موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنی رائے سے رجوع کر سکتے ہیں اور پانچ سال قبل جس سیاسی جماعت یا امیدوار کے بارے میں اچھی رائے قائم کر کے ووٹ دیا تھا اگر اس کی کارکردگی، رائے دہندہ کی توقع کے مطابق نہیں رہی تو وہ ووٹر یا رائے دہندہ اپنی رائے بدل کر کسی دوسری پارٹی یا امیدوار کو ووٹ دے سکتا ہے اور یہ اس کا جائز قانونی و آئینی حق ہے۔ اس پر کوئی قانون اور معاشرہ، رائے دہندہ کی گرفت کر سکتا ہے اور نہ کوئی فرد اسے اس کی رائے کے تغیر پر طعنہ دے سکتا ہے۔ اور اگر رائے کی تبدیلی کا اِختیار رائے دہندہ سے سَلب کر لیا جائے تو پھر ہر پانچ سال بعد انتخابات کروانا اور اس عمل پر اربوں روپے خرچ کرنا ایک بے مقصد مشق اور کارِ لاحاصل بن کر رہ جائے۔
رائے کا اِظہار اور اِختلاف کوئی بری اور بڑی بات نہیں لیکن یہ اختلاف و اظہار ادب و آداب ، عزت و احترام اور صبر و تحمل کے دائروں میں رہ کر بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں سوال کی مانند رائے کے اظہار اور رائے کے اختلاف کی بھی حوصلہ افزائی کا فقدان ہے، خواہ وہ مذہبی و فقہی مسائل ہوں یا سیاسی و انتخابی، ہم کسی کو تعبیر اور رائے کے اختلاف پر رعایت اور گنجائش دینے کے سزاوار نہیں۔ اور رائے کا یہ اختلاف دائمی ناراضی حتاکہ دشمنی میں بدل جاتا ہے۔
رائے بَننے اور بننے کے مختلف ذرائع ہیں جن میں ذاتی خیالات و تجربات ، ثقافتی اور سماجی نارمز، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اِنفرادی ویلیوز، اِعتقادات، جذبات، احساسات اور تعصبات اہم زینے ہیں جن کو سَر کر کے افراد کی آراءبنتے اور بگڑتے رہنے کا مستقل اور مسلسل عمل معاشروں میں جاری ساری رہتا ہے۔اِسی لیے مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہوتی ہیں اور یہ تنوع معاشرے کو مضبوط بناتا ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کو سننا، پڑھنا اور سمجھنا ہمیں زیادہ برداشت، تحمل اور فہم کا حامل بناتا ہے۔ بسا اوقات مختلف افراد کی رائے یکساں ہوتی ہیں لیکن ان آراءکی یکسانیت کے پسِ منظر میں وجوہات مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔
رائے کے اظہار کے مختلف پلیٹ فارمز ہیں جن میں تقاریر، تحاریر، مباحثے، مکالمے ، مشاعرے، سروے، الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا۔
رائے کے اِظہار کے لیے سوشل میڈیا آجکل اس لیے زیادہ عام اور اہم ہے کہ اس تک آسان ، فوری اور بِلا روک ٹوک ، دنیا کے ہر کونے سے ،ہر وقت، بر وقت، ہر موبائل فون یافتہ فرد کو ہر طرح کے اخلاق یافتہ اور اخلاق باختہ الفاظ میں رسائی حاصل ہے۔ جھوٹ اور سچ کی بھی کوئی قید ، کسوٹی اور سینسر شِپ نہیں۔سوشل میڈیا ابھی ترقی پزیر ، نیا اور خام بھی ہے۔ لوگوں کا شوق اور دلچسپی ابھی اس میں برقرار ہے لیکن اس میڈیا نے بھی ابھی دکھ دیکھنے ہیں۔
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پھر جن لوگوں کو بڑی تعداد میں لائیکس، ویوز اور فالورز میّسر آ جائیں وہ ان فالورز کی مَن پسند آراء جاری کر کے خاطر خواہ آمدن بھی حاصل کرتے ہیں۔
کچھ خالقانِ رائے ہوتے ہیں جو لوگوں کی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں یا رائے بنانے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ راہی ہے جسے اپنے حق میں کرنے کے لیے سیاست دان ایڑی چوٹی کا زور لگاتے، ماریں کھاتے، مارے مارے پھرتے، جیلیں کاٹتے حتیٰ کہ قوم سے جھوٹے وعدے تک کرتے ہیں۔
رائے کسی بھی معاشرتی ڈھانچے کا بنیادی جزو ہوتی ہے۔رائے کی آزادی کے بغیر کسی بھی معاشرے میں ترقی اور تبدیلی ممکن نہیں۔رائے کا آزادانہ اظہار ایک بنیادی انسانی جبلت اور حق ہے جس کی ضمانت بہت سے ممالک کے آئین میں دی گئی ہے۔یہ اظہار نہ صرف ہمارے خیالات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے بلکہ معاشرتی مسائل کے حل میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مثبت رائے معاشرتی ترقی میں معاون ثابت ہوتی ہے
جبکہ منفی رائے تعصب، نفرت اور انتشار کو جنم دے سکتی ہے۔
رائے قائم کرتے اور دیتے وقت ہمیں اتنا کشن اور گنجائش رکھنی چاہیے کہ ہماری رائے غَلَط بھی ہو سکتی ہے اور مدِ مقابل کی رائے درست بھی ہو سکتی ہے خواہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہی کیوں نہ رائے بنائی ہو جیسا کہ شروع میں عرض کیا کہ دور بیٹھے شخص نے کھونٹا گاڑنے والے دونوں افراد کے متعلق ایک جیسی رائے قائم کی حالانکہ حقیقت میں دونوں کا عمل یکساں مگر نیت اور سوچ میں بعد المشرقین کا فاصلہ ہے اور اسی طرح کھونٹا اکھاڑنے والوں کے مقاصد میں پورب پچھم کی دوری ہے۔ اس کے بر عکس پہلے دونوں اشخاص کا عمل ایک دوسرے سے سَمت میں مخالف لیکن مقصد دونوں کا
اچھائی اور بھلائی ہے۔ علٰی ہذا القیاس۔
ضروری نہیں جو مختلف ہو وہ مخالف بھی ہو۔